ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سے متعلق سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ، آرٹیکل چھ پھر موضوعِ بحث

مسلم لیگ (ن) نے تحریکِ عدم اعتمادسے متعلق ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو کالعدم قرار دینے کے سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کے بعد صدرِ مملکت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر دیا ہے۔سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کے بعد ملک میں ایک بار پھر آرٹیکل چھ سے متعلق بحث بھی چھڑ گئی ہے۔

اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کے بعد اب کابینہ کے پاس اس معاملے سے پہلو تہی کرنا ممکن نہیں ہے۔ لہذٰا آرٹیکل چھ کی کارروائی کو آگے بڑھانا ہو گا۔

اُن کا کہنا تھا کہ آئین سے انحراف کرنے پر اسپیکر قومی اسمبلی کو چاہیے کہ وہ تحریکِ انصاف کے اراکین کے خلاف ریفرنس دائر کر یں تاکہ الیکشن کمیشن نااہلی کی کارروائی شروع کرے۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر رولنگ ازخود نوٹس کیس سے متعلق بدھ کو جاری کیے جانے والے اپنے تفصیلی فیصلے میں قرار دیا تھا کہ اس وقت کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے تحریکِ عدم اعتماد کو مسترد کر کے آئین سے انحراف کیا۔

چھیاسی صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں عدالت نے قرار دیا کہ عدالت عمران خان کی حکومت کو ہٹانے سے متعلق بیرونی مداخلت کی دلیل سے مطمئن نہیں ہے۔

سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے اضافی نوٹ میں لکھا ہے کہ پارلیمان غور کرے کہ اس معاملے پر آرٹیکل چھ لگانا ہے یا نہیں۔

وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے آئین کی بالادستی ہوئی ہے جس سے اُن کے بقول عمران خان کی سیاست ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ اس وقت کے وزیرِ اعظم عمران خان نے تحریکِ عدم اعتماد کا سامنا کرنے کے بجائے غیر آئینی طور پر اسمبلیاں تحلیل کرنے کی سفارش کیں اور صدرِ مملکت عارف علوی نے فوری اسمبلیاں تحلیل کر دیں۔ لہذٰا وہ غیر آئینی اقدام کے مرتکب ہوئے۔

'عمران خان کو گرفتار کرنے کے لیے تیار ہوں'

رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ وہ عمران خان کو گرفتار کرنے کے لیے تیار ہیں، اُنہوں نے جو جرم کیا ہے کابینہ کی منظوری کے بعد اُن کے خلاف مقدمہ درج کر کے کارروائی ہونی چاہیے۔

وفاقی وزیرِ داخلہ نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کے بعد عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے خلاف واضح مواد موجود ہے، لہذٰا اگر کابینہ نے منظوری دی تو مقدمات قائم کریں گے۔

دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر افنان اللہ خان نے صدرِ مملکت عارف علوی کے مواخذے کی قرارداد سینیٹ میں جمع کرا دی ہے۔

'آرٹیکل سکس لگنا شروع ہو گئے تو گلے زیادہ اور رسے کم پڑ جائیں گے'

سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے ڈپٹی اسپیکر رولنگ ازخود نوٹس میں تفصیلی فیصلے کو پاکستان تحریک انصاف نے متضاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر آرٹیکل سکس لگنا شروع ہوئے تو گلے زیادہ اور رسے کم پڑ جائیں گے۔

لاہور میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے سابق وزیراطلاعات فواد چوہدری نےاسٹیبلشمنٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیاسی فیصلے کرنے کے لیے ان کے منہ کو خون لگا ہوا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ ہمارے کچھ جنرلز اور ججز بند کمروں میں بیٹھ کر فیصلے کر دیں کہ آج سے ہماری پالیسی یہ ہو گی اور اگلے دن ہم بدل جائیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ بدقسمتی سے پاکستان کی تاریخ ہے جو بدل جائے گی۔ پاکستان کے عوام کو فیصلوں کا حق دینا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ مقتدر حلقے فیصلہ کریں کہ انہوں نے ملک کو سری لنکا بنانا ہے یا اسے آگے بڑھانا ہے۔

فواد چوہدری نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بلاول بھٹو پاکستان کی تاریخ کے سب سے ناکام وزیرِ خارجہ ثابت ہو رہےہیں، ہمیں عام انتخابات کی طرف جانا ہوگا، اس کے سوا کوئی اور حل نہیں ہے۔

SEE ALSO: ’فوج کو اپنے دائرہ کار سے باہر کسی کاروباری سرگرمی کی اجازت نہیں‘

آرٹیکل سکس کی کارروائی ممکن نہیں: حامد خان

سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر وکیل اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما حامد خان نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس فیصلہ پر آرٹیکل سکس کے تحت کارروائی ممکن نہیں، فیصلہ ہمیشہ اکثریتی تسلیم کیا جاتا ہے، ایک جج کا کہنا ان کی رائے ہوسکتی ہے لیکن اس پر کوئی کارروائی نہیں کی جاسکتی۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت ڈپٹی اسپیکر کا جو بھی ایکشن تھا وہ آئین کے خلاف تھا ، اس عمل کے ذریعے آئین کی خلاف ورزی کی گئی تھی اور عدالتی فیصلہ اس بارے میں بالکل درست ہے۔ سائفر کے بارے میں بھی عدالت نے جو کہا وہ اس مواد کی بنیاد پر کہا جو ان کے سامنے تھا، لہذا میرے خیال میں یہ بالکل درست فیصلہ ہے۔

سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ ہے کیا؟

سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے 86 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے کا آغاز سورہ الشعراء سے کیا گیا ہے۔

فیصلے کے مطابق ڈپٹی اسپیکر کا تحریک عدم اعتماد مسترد کرنے کا فیصلہ غیرآئینی ہے وزیراعظم کا اسمبلیاں تحلیل کرنے کا حکم غیرقانونی اور کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔

فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ چیف جسٹس پاکستان کے گھر پر ہونے والے اجلاس میں 12 ججز نے از خود نوٹس کی سفارش کی اور پھر سپریم کورٹ نے آئین کو مقدم رکھنے اور اس کے تحفظ کے لیے ڈپٹی اسپیکر رولنگ پر از خود نوٹس لیا۔

فیصلہ کے مطابق ڈپٹی اسپیکر کے غیر آئینی اقدام کی وجہ سے سپریم کورٹ متحرک ہوئی، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کی وجہ سے وزیراعظم کی سفارش پر صدر مملکت نے اسمبلی توڑی جس پر اپوزیشن اور عوام کے بنیادی آئینی حقوق متاثر ہوئے۔


'نیشنل سیکیورٹی کونسل نے سائفر پر تحقیقات کا نہیں کہا'

سپریم کورٹ کاکہنا ہے کہ سائفر کے حوالے سے نیشنل سیکیورٹی کونسل کے اعلامیہ میں بیرونی مداخلت کے تعین کے لیے سائفر پر تحقیقات کا نہیں کہا گیا۔ سیکیورٹی کونسل اعلامیے میں اپوزیشن جماعتوں کے بیرونی طاقتوں کے ساتھ مل کر عدم اعتماد لانے کا ذکر بھی موجود نہیں ہے۔

تفصیلی فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ سائفر سپریم کورٹ یا کسی اپوزیشن جماعت کے رکن کو نہیں دکھایا گیا، عدالت کو عدم اعتماد لانے کے حوالے سے بیرون مداخلت کا بھی کوئی ثبوت نہیں دیا گیا، بیرونی سازش میں شامل کسی شخص کا نام بھی حتمی طور پر سامنے نہیں لایا گیا۔

ڈپٹی اسپیکر نے بھی رولنگ میں مزید تحقیقات کا کہا، سات مارچ کو دھمکی آمیز مراسلہ موصول ہونے کے بعد بھی اس وقت کی حکومت نے تحقیقات نہیں کروائیں جبکہ پی ٹی آئی حکومت نے اس معاملے پر کمیشن تشکیل دینے کی منظوری دی تھی۔

سپریم کورٹ نے فیصلے میں لکھا کہ عدم شواہد کی بنیاد پر ہی پی ٹی آئی حکومت کے سائفر کے نیشنل سیکیورٹی سے منسلک ہونے کے مؤقف کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا، سائفر پر از خود نوٹس لینے کے پی ٹی آئی کے مطالبہ کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

پارلیمان غور کرے کہ آرٹیکل 6 لگے گا یا نہیں: جسٹس مظہر عالم میاں خیل

سپریم کورٹ کے تحریری فیصلے میں گزشتہ روز اپنے عہدےسے ریٹائر ہونے والے جج جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے اضافی نوٹ لکھا کہ ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کی نام نہاد رولنگ بدنیتی پر مشتمل تھی، اسپیکر کے بجائے ڈپٹی اسپیکر نے اجلاس کی کارروائی کیوں چلائی اس کا جواز نہیں بتایا گیا اور قاسم سوری نے پہلے سے تیار کردہ رولنگ پڑھ کر سنائی۔

انہوں نے کہا کہ اختیارات کا استعمال ایک مقدس امانت ہے جس کی صدر، اس وقت کے وزیرِ اعظم، اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر اور اس وقت کے وزیرِ قانون نے خلاف ورزی کی۔

جسٹس مظہر عالم میاں خیل کا کہنا تھا کہ کیا اس طرح کے اقدامات آئین کے آرٹیکل 6 (سنگین غداری) کو متوجہ نہیں کرتے، جبکہ اراکین پارلیمان کو بھی اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا وہ ایسے غیر آئینی اقدامات کے لیے راستہ کھلا چھوڑ دیں یا مستقبل میں اس طرح کی گندگی کو روکنے کے لیے مناسب اقدامات کریں۔