تجزیہ کاروں اور بحرین میں انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں کے مطابق، بحرین کی حکومت اپنی سکیورٹی فورسز میں اضافے کے لیے، پاکستان سے مسلسل سابق فوجیوں اور پولیس والوں کو بھرتی کرتی رہی ہے ۔
سی آئی اے کے سابق افسر بروس رئیڈل کو جنوبی ایشیا میں کام کا وسیع تجربہ ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ بحرین پاکستان کے سابق فوجیوں کو کئی عشروں سے بھرتی کرتا رہا ہے ۔ لیکن مار چ میں خلیج کی ریاستوں میں جمہوریت کی حمایت میں مظاہروں کے بعد سے، اس بھرتی میں زبردست اضافہ ہوا ہے ۔ ’’گذشتہ سردیوں میں، جب بہت بڑے مظاہرے ہوئے اور ایسا لگتا تھا کہ حکومت کا تختہ الٹ سکتا ہے، تو کرایے کے سپاہیوں کی بھرتی میں زبردست اضافہ ہو گیا۔ بلکہ انھوں نے پاکستان کے بڑے بڑے اخباروں میں معقول تنخواہ پر بحرینی پولیس اور بحرینی گارڈ میں تجربہ کار پاکستانی سپاہیوں اور پولیس کے عملے کی بھرتی کے لیے اشتہار دینا شروع کر دیے۔‘‘
پاکستانی اخبارات میں شائع ہونے والے اشتہارات پولیس کے ایسے سابق عملے کے لیے تھے جسے فسادات کو کنٹرول کرنے کا تجربہ ہو اور جو فسادات کو کنٹرول کرنے کے انسٹرکٹرز رہ چکے ہوں۔ اس کے علاوہ، ملٹری پولیس، نان کمیشنڈ افسروں، اور ملٹری اور سکیورٹی کے اسپیشلسٹ ، اور بحرین نیشنل گارڈ کے لیے باورچیوں اور میس ہال کے ویٹرز کے لیے بھی اشتہار دیے گئے تھے۔ یہ اشتہار فوجی فاؤنڈیشن نے دیے تھے، جو سابق فوجیوں اور ان کے اہلِ خاندان کی بھلائی کا ادارہ ہے ۔
ایک اعلیٰ پاکستانی ذریعے نے بتایا کہ صدر زرداری اور شاہ حماد نے بدھ کے روز صدر زرداری کے دورے میں ، بھرتی کے معاملے پر بات چیت کی ۔ لیکن جب پاکستانی سفارت خانے سے اس بار ے میں تبصرے کے لیے کہا گیا تو ایک ترجمان نے کہا کہ سابق فوجیوں کی بھرتی پرائیویٹ ذرائع سے ہوتی ہے، اور پاکستانی حکومت کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
رئیڈل کہتے ہیں کہ ہزاروں نہیں تو سینکڑوں بے روزگار سابق فوجی اور پولیس والوں کو ملازمتیں دی گئی ہیں۔ ان میں بیشتر کا تعلق پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان سے ہے ۔
بحرین سنٹر فار ہیومن رائٹس کے صدر نبیل رجب کہتے ہیں کہ پاکستان سے بھرتی کیے ہوئے عملے نے مظاہرین کے ساتھ بڑا درشت رویہ اختیار کیا ہے ۔ ’’یہ لوگ پڑھے لکھے نہیں ہیں۔ ان سےکہا جاتا ہے کہ وہ بحرین میں جہاد کے لیے کافروں کو یا شیعوں کو مارنے کے لیے جا رہے ہیں۔ وہ بحرین میں الگ تھلگ مقامات پر رہتےہیں۔ ان کی اپنی الگ بستیاں ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ گذشتہ مہینوں اور برسوں میں، ہلاکتوں اور اذیت رسانی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بہت سے واقعات ہوئے ہیں۔‘‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ انہیں یہ کیسے پتہ چلا کہ وہ پاکستانی ہیں، تو انھوں نے کہا کہ یہ لوگ عربی نہیں اردو بولتے ہیں۔ بلکہ مظاہرین ، ان پولیس والوں اور محافظوں کو اردو میں برا بھلا کہتے ہیں۔ رجب کہتےہیں کہ اگرچہ حکومت نے ہنگامی حالت ختم کر دی ہے، اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں ایک کمیشن قائم کر دیا ہے، لیکن حکومت کے خلاف مظاہرے جاری ہیں۔
بحرین میں بادشاہت قائم ہے اور حکمراں سنی مسلمان ہیں جو اقلیت میں ہیں۔ اکثریتی شیعہ آبادی جمہوریت کے حمایت میں مظاہروں میں پیش پیش رہی ہے۔ نبیل رجب انٹرنیشنل فیڈریشن فار ہیومن رائٹس کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بحرین کی حکومت سکیورٹی کے عہدوں پر فائز شیعوں کے بارے میں محتاط ہے۔
وہ کہتے ہیں’’ان کے شیعہ ہونے کی وجہ سے، حکومت یا حکمراں خاندان، انہیں فوج میں ملازم نہیں رکھتا ۔ اس لیے فوج یا پولیس میں ہمیشہ اسامیاں خالی رہتی ہیں۔ انہیں کسی نہ کسی کو تو ملازمت دینی ہی ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ جمہوریت اور انسانی حقوق کے لیے احتجاج کرنے والوں سے نمٹنے کے لیے وہ بہت سے ملکوں سے ، خاص طور سے پاکستان سے، کرایے کے سپاہی لاتے ہیں۔‘‘
بروس رئیڈل کہتے ہیں کہ بحرین کی پالیسی سے شیعہ سنی فرقہ وارانہ تفریق میں اضافہ ہوا ہے ۔ ’’حقیقت یہ ہے کہ حکمراں خلیفہ خاندان اکثریتی شیعہ آبادی کو کچلنے کے لیے پاکستان سے کرائے کے سنی سپاہی لا رہا ہے جس سے شیعوں میں یہ تاثر اور مضبوط ہو رہا ہے کہ یہ حکومت صحیح معنوں میں اصلاحات کرنا نہیں چاہتی، وہ ملک میں آئینی بادشاہت قائم کرنا نہیں چاہتی۔ وہ اکثریت کو محض اس لیے کچلنا چاہتی ہے کیوں وہ شیعہ ہیں۔‘‘
رئیڈل کہتے ہیں کہ پاکستان سے بھرتی کرنے میں بحرین کے حکمرانوں کا ایک اور مقصد بھی ہے۔’’بہت سے سنّی پاکستانی سپاہیوں کو ، اگر انھوں نے اچھی طرح اور کافی دن تک خدمات انجام دیں، ان کی ملازمت ختم ہونے پر بحرین کی شہریت پیش کی جائے گی۔ اس کا مقصد جزیرے میں اقلیتی سنیوں کی آبادی کو بڑھانا ہے ۔ اس سے بحرین میں حکومت کے بارے میں شیعوں کی مایوسی اور غصے میں اور اضافہ ہوتا ہے۔‘‘
اس معاملے کے سفارتی مضمرات بھی ہوئے ہیں۔ ایران نے جو شیعہ ملک ہے، مظاہروں کے بارے میں بحرین کی حکومت کی کارروائیوں کے بارے میں تشویش ظاہر کی ہے ۔ مارچ میں، 1,600 افراد پر مشتمل گلف کوآپریشن کونسل فورس جس کی قیادت ایک اور سنی بادشاہت، سعودی عرب کے پاس تھی، بحرین گئی تھی۔ اپریل میں، ایران نے پاکستانی سفیر کو طلب کیا اور بحرین کی طرف سے پاکستان کے کرایے کے سپاہیوں کے ذریعے احتجاجی مظاہروں کو دبانے کے بارے میں سرکاری تشویش کا اظہار کیا۔ ایران کے اخبارات کے مطابق، ایرانی عہدے داروں نے متنبہ کیا کہ اگر یہ بھرتی جاری رہی تو پاکستان اور ایران کے تعلقات پر سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔