"فیروز ایسا لڑکا تھا جس سے اگر کوئی دوست بھی سخت لہجے میں بات کرتا تھا تو وہ رونے لگ جاتا تھا۔ ایسا لڑکا کسی بھی دہشت گرد کارروائی میں تو دور کی بات، کسی معمولی لڑائی جھگڑے میں بھی شامل نہیں ہوتا تھا۔"
یہ الفاظ ہیں گزشتہ ماہ 11 مئی کو راولپنڈی سے پرسرار طور پر لاپتا ہوجانے والے فیروز بلوچ کے کزن رحیم داد کے۔ رحیم داد ایرڈ ایگریکلچر یونیورسٹی راولپنڈی میں فیروزبلوچ کے ساتھ ہی پڑھتے ہیں۔
ایرڈ ایگریکلچر یونیورسٹی میں زیرِتعلیم بی ایڈ سیکنڈ سمسٹر کے طالبِ علم فیروز بلوچ یونیورسٹی سے پرسرار طور پر لاپتا ہوگئے تھے۔ ڈیڑھ ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی تاحال فیروز کے حوالے سے کوئی معلومات سامنے نہیں آ سکی۔
بلوچ طلبہ نے یونیورسٹی کے گیٹ پر کئی روز تک احتجاجی کیمپ لگائے رکھا جو اب یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے فیروز کی بازیابی کے لیے ہرممکن کوشش کی یقین دہانی کے بعد ختم کر دیا گیا۔
پولیس کا اس بارے میں کہنا ہے کہ فیروز کے موبائل فون میں موجود تمام نمبرز کا ڈیٹا اور یونیورسٹی اور اس کے گردونواح کی سی سی ٹی وی فوٹیجز کی مدد سے فیروز کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہیں۔
گیارہ مئی کے واقعات کے حوالے سے رحیم داد کا کہنا تھا کہ "فیروز نے اس دن مجھ سے کہا کہ وہ لائبریری جارہا ہے اور وہیں پر شام تک بیٹھ کر پڑھے گا۔ یہ فیروز کا عام معمول تھا کیونکہ فیروز کوئی بہت ذہین طالب علم نہیں تھا لیکن وہ محنتی تھا اور اس مقصد کے لیے وہ اکثر شام کے اوقات میں دیگر کلاس فیلوز کے ساتھ لائبریری میں پڑھائی میں مصروف رہتا تھا۔"
اس دن بھی وہ دوپہر کے وقت گیا اور رات جب نو بجے تک وہ واپس نہیں آیا تو ہمیں پریشانی ہوئی اور ہم نے اس کی تلاش شروع کی، پہلے سب کلاس فیلوز اور دوستوں سے پوچھا لیکن کسی کو بھی فیروز کے حوالے سے نہیں پتا تھا۔ جس کے بعد ہم نے جب اس کے والدین کو کال کرنے کی کوشش کی تو اس وقت رات بہت ہوچکی تھی۔اس کے بعد ہم نے پولیس سے رابطہ کیا لیکن پولیس کا کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ وہ کسی سے ملنے چلا گیا ہو، فیروز کا فون مکمل طور پر بند جا رہا تھا اور اس نے کسی سے رابطہ نہیں کیا تھا۔
پولیس کو اگرچہ 11 مئی کی رات ہی آگاہ کر دیا گیا تھا لیکن پولیس نے 13 مئی کو ایف آئی آر درج کی اور اس کے بعد بھی اب تک کچھ علم نہیں ہو سکا۔
رحیم داد کے بقول اس واقعہ کے اگلے دن ایک ٹیچر نے کلاس کے دوران کہا کہ بعض لوگ باہر لاپتا ہوتے ہیں لیکن وہ یونیورسٹی کو بدنام کرتے ہیں،اس وجہ سے ہمیں شک ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ کو فیروز کے غائب ہونے سے متعلق معلومات ہیں لیکن وہ اب تک ہمیں نہیں بتا رہے۔
رحیم داد کا کہنا ہے کہ اس واقعہ کے بعد بھی بلوچ طلبہ کو ڈرانے کا سلسلہ جاری ہے اور اس واقعہ کے بعد ہمارے ایک بلوچ ساتھی کو ایک شخص نے ملنے کا کہا جو اپنا تعلق سیکیورٹی ادارے سے بتا رہا تھا جس کی وجہ سے ہمیں شک ہے کہ فیروز کو غائب کیا گیا ہے۔
رحیم داد نے کہا کہ فیروز کے والد تربت میں پولیس کے ملازم ہیں اور بطور سپاہی کام کرتے ہیں لیکن وہ بھی اس بارے میں بے بس نظر آرہے ہیں۔ فیروز کی بازیابی کے لیے وہ بھی اس کیمپ میں آ کر بیٹھے رہے لیکن کچھ فائدہ نہیں ہوا۔ پولیس اور دیگر محکموں سے بار بار بات کی جارہی ہے لیکن کچھ علم نہیں ہورہا۔ رحیم داد نے کہا کہ ہم نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی پٹیشن دائر کی ہے لیکن اب تک اس پر کوئی سماعت نہیں ہوئی۔
پولیس کا مؤقف
راولپنڈی کے تھانہ صادق آباد کے ایس ایچ او راجہ گل تاج نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فیروز بلوچ کے موبائل فون کا مکمل ڈیٹا حاصل کرلیا گیا ہے جب کہ فیروز نے جن لوگوں سے رابطہ کیا ہے ان کے فونز کا ڈیٹا بھی حاصل کیا جارہا ہے۔ امید ہے کہ اس بارے میں جلد کوئی بریک تھرو ہوگا۔
راجہ گل تاج نے اس بات کی تردید کی کہ فیروز یونیورسٹی کے اندر سے غائب ہوا، ان کا کہنا تھا کہ فیروز کی تلاش میں ہم نے یونیورسٹی کے اندر موجود تمام سی سی ٹی وی کیمروں کا جائزہ لیا ہے لیکن وہ کسی بھی کیمرے میں نظر نہیں آ رہے۔
اُن کے بقول یونیورسٹی کی لائبریری سمیت تمام اہم مقام مکمل طور پر کیمروں سے کور ہیں، تمام مین گیٹس پر کیمرے موجود ہیں لیکن کسی بھی جگہ پر فیروز نظر نہیں آرہا جس سے لگتا ہے کہ اس کے ساتھ جو بھی واقعہ پیش آیا وہ یونیورسٹی سے باہر پیش آیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں یونیورسٹی انتظامیہ کے ساتھ بھی ہم رابطہ میں ہیں اور ہماری کوشش ہے کہ اسے جلد بازیاب کروایا جائے۔
رحیم داد نے کہا کہ ہم نے یونیورسٹی کے گیٹ پر احتجاجی کیمپ لگایا تھا جس میں بلوچ طلبہ کئی دن تک احتجاج کرتے رہے لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ کیمپ ختم کرنے کے لیے یونیورسٹی انتظامیہ نے ہمیں یقین دہانی کروائی ہے کہ فیروز کی بازیابی کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے گی، بلوچ طلبہ کی پروفائلنگ کا سلسلہ بند کیا جائے گا۔
پاکستان میں حالیہ عرصے میں مختلف تعلیمی اداروں میں بلوچ طلبہ کی پروفائلنگ اور انہیں ہراساں کیے جانے کی شکایات سامنے آ رہی ہیں۔
کراچی یونیورسٹی کے باہر ہونے والے خودکش حملہ کے بعد لاہور میں پنجاب یونیورسٹی سے نمل یونیورسٹی کے ایک طالب علم بیبگر امداد بلوچ کو بھی سیکیورٹی اداروں نے حراست میں لیا تھا اور 20 دن کے بعد انہیں رہا کردیا گیا تھا۔
اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی کے ایک طالب علم حفیظ بلوچ کے لاپتا ہونے کے ایک ماہ بعد ان کی گرفتاری ظاہر کردی گئی تھی اور ان پر بارودی مواد رکھنے کا مقدمہ درج کرکے انہیں عدالت میں پیش کر دیا گیا تھا۔
دوسری جانب سیکیورٹی ذرائع کا لاپتا افراد کی جبری گمشدگیوں کے حوالے سے مؤقف ہے کہ اکثر لاپتا افراد بیرون ملک فرار ہوچکے ہیں اور بعض کالعدم عسکریت پسند تنظیموں میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد سے خود روپوش ہوئے ہیں۔ اس لیے ان کے لواحقین کے سیکیورٹی فورسز پر لگائے گئے الزامات بے بنیاد ہیں۔