|
بنگلہ دیش میں گزشتہ ماہ پرتشدد مظاہروں کے دوران لوٹا گیا اسلحہ واپس لینے کے لیے مہم شروع کر دی گئی ہے جس کے تحت سیکیورٹی فورسز لوٹی گئی ہزاروں بندوقوں کی واپسی کے لیے متحرک ہیں۔
پرتشدد مظاہروں کے دوران پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے فائرنگ بھی کی تھی۔ تاہم مظاہرین کی جانب سے پولیس اسٹیشنز میں دھاوا بول کر وہاں سے اسلحہ لوٹنے کی رپورٹس بھی سامنے آئی تھیں۔
بنگلہ دیش میں گزشہ ماہ کوٹہ سسٹم کے خلاف شروع ہونے والا طلبہ کا احتجاج ملک گیر تحریک میں بدل گیا تھا اور اس دوران پرتشدد ہنگاموں میں 450 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
پانچ اگست کو طلبہ نے ڈھاکہ کی جانب مارچ کا اعلان کیا تھا اور صورتِ حال مزید سنگین ہونے کے خدشات تھے۔ ایسے میں فوج کی مداخلت کے بعد شیخ حسینہ کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا تھا اور وہ بذریعہ ہیلی کاپٹر بھارت پہنچ گئی تھیں۔
شیخ حسینہ کا اقتدار ختم ہونے کے بعد نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹر محمد یونس نے عبوری حکومت کی سربراہی سنبھال لی تھی۔
اسلحہ رضاکارانہ طور پر واپس کرنے کی مہم کے دوران لگ بھگ 3700 ہتھیار جمع کرائے گئے ہیں۔ جب کہ حکام کے مطابق دو ہزار کے قریب بندوقیں، راؤنڈز، آنسو گیس کے شیل، اسٹن گرنیڈ اور دیگر سازوسامان اب بھی واپس نہیں لیا جا سکا۔
سینئر پولیس افسر انعام الحق نے خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کو بتایا کہ اگر دی گئی ڈیڈ لائن ختم ہونے سے پہلے اسلحہ واپس پولیس اسٹیشنز میں نہ پہنچایا گیا تو اسے غیر قانونی تصور کیا جائے گا۔
اسلحہ واپس حاصل کرنے کی مہم میں پولیس اور سیکیورٹی فورسز کے علاوہ پیرا ملٹری ریپڈ ایکشن بٹالین اور انصار فورسز بھی شامل ہیں۔
ڈھاکہ کے ڈپٹی پولیس کمشنر عبید الرحمن کہتے ہیں کہ مظاہرین پر تشدد کے الزام میں دو سابق پولیس افسران کو بھی حراست میں لیا گیا ہے جنہیں قتل کے الزامات کا سامنا ہے اور وہ سات روزہ ریمانڈ پر ہیں۔
ڈھاکہ میٹروپولیٹن پولیس نے منگل کو دیر گئے ایک بیان میں کہا کہ زیرِ حراست افسران میں سابق پولیس چیف چودھری عبداللہ المامون بھی شامل ہیں جنہوں نے شیخ حسینہ کے فرار ہونے کے ایک دن بعد استعفیٰ دے دیا تھا اور انہیں حراست میں لے لیا گیا تھا۔
ایک اور پولیس افسر شاہد الحق جو 2014 سے 2018 تک پولیس چیف رہے اُنہیں منگل کو حراست میں لیا گیا تھا۔ وہ بھی سات روزہ جسمانی ریمانڈ پر ہیں۔
واضح رہے کہ معزول وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کی حکومت پر سیاسی مخالفین کو حراست میں لینے، ماورائے عدالت ہلاکتوں اور بدسلوکی کے الزامات کا سامنا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے جائزہ کمیشن نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں کہا تھا کہ یہ اشارے ملے ہیں کہ احتجاجی مظاہروں کے دوران سیکیورٹی فورسز نے طاقت کا غیر ضروری استعمال کیا۔
بنگلہ دیش کے عبوری حکمراں محمد یونس نے بھی اقوامِ متحدہ کے تفتیش کاروں کو ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی تھی۔
اس خبر کے لیے معلومات خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے لی گئی ہیں۔