خواتین کے بناؤ سنگھار اور ان کے لیے اچھا وقت گزارنے کی جگہوں میں سے ایک بیوٹی سیلون ہے۔ لیکن افغانستان میں طالبان کے کنٹرول کے بعد سے خواتین بیوٹی سیلون کا رخ کرنے سے ڈرنے لگی ہیں۔
طالبان کے کنٹرول سے قبل خواتین بیوٹی سیلون میں مردوں کی نظروں سے دور اور آزادی کے ساتھ اپنا اچھا وقت گزارتی تھیں ۔ البتہ اب صورتِ حال پہلے جیسی نہیں رہی ہے۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق طالبان کی دھمکیوں کی باوجود محدثہ نے افغانستان میں اپنا بیوٹی سیلون بند نہیں کیا اور وہ خواتین کو بناؤ سنگھار کے لیے ایک اچھا ماحول فراہم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
محدثہ اپنے بیوٹی سیلون کے ذریعے خواتین کو ان کی مصروف زندگیوں میں سے وقت نکالنے اور ان کی پریشانیوں کو بانٹنے کا کام کر رہی ہیں۔
بیوٹی سیلون کی مالکن نے 'اے ایف پی' سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ "ہم ہار نہیں مانیں گے اور کام کرنا نہیں چھوڑیں گے۔"
انہوں نے کہا کہ ہمیں خوشی ہے کہ ہمارے پاس روزگار ہے اور افغان معاشرے میں خواتین کے لیے کام کرنا بہت ضروری ہے کیوں کہ زیادہ تر خواتین اپنے خاندان کا پیٹ پال رہی ہیں۔
افغان خواتین فیشن اور بیوٹی برانڈز کے ان پوسٹرز والے سیلون کے دروازوں سے خوف کے سائے تلے داخل ہوتی ہیں جن پوسٹرز پر طالبان کے آنے کے بعد سیاہ رنگ پھیر دیا گیا ہے۔
سیلون کے اندر داخل ہونے کے بعد خواتین بلا جھجھک اپنے عبایا اور اسکارف اتار کر بناؤ سنگھار کے لیے پُر جوش ہوتی ہیں۔
اس سے قبل 1996 سے 2001 کے دوران افغانستان میں طالبان کے دورِ اقتدار میں خواتین کو برقعہ پہننے کا پابند کیا گیا تھا جب کہ بیوٹی سیلون پر بھی پابندی عائد کی گئی تھی۔
ماضی میں طالبان کے دورِ اقتدار میں خاتون کا ناخن پالش لگانا ان کی انگلی کی کاٹنے کا خطرہ موہ لینے کے مترادف تھا۔ لیکن اب طالبان نے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد دنیا کے سامنے اپنا ایک نیا چہرہ پیش کیا ہے۔
افغانستان اس وقت معاشی بحران سے گزر رہا ہے اور ملک کو اس بحران سے بچانے کے لیے طالبان کو عالمی امداد کی ضرورت ہے۔ ایسے میں طاالبان نے اس مرتبہ روز مرہ کی زندگی پر دوبارہ پابندیاں عائد نہیں کی ہیں۔
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ محدثہ کو اپنا بیوٹی سیلون چلانے پر دھمکیاں نہیں ملیں۔
محدثہ کے بقول ایک مرتبہ طالبان کے گروہ نے ان کے سیلون کے خلاف نعرے بازی کر کے انہیں دھمکایا لیکن انہوں نے اس صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے قانون کا سہارا لیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا کہنا تھا سیلون میں کام کرنے والی خواتین بے حد بہادر ہیں کیوں کہ وہ روزانہ خوف کے سائے تلے کام کر رہی ہیں۔
سیلون میں موجود 22 سالہ مروہ (فرضی نام) کا ہیئر کٹ، گلے میں چین اور کان چھیدوانے کے نشان 'مزاحمت' کا پیغام ظاہر کر رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ "ہم نیلے اور کالے عبایا پہننے والوں میں سے نہیں ہیں۔"
تاہم افغانستان کی اس غیر یقینی صورتِ حال کے پیشِ نظر چند خواتین ملک چھوڑنے جب کہ بعض تبدیلی کے لیے پُر امید ہیں۔
فرخندہ کو اُمید ہے کہ وہ دوبارہ اپنے کام پر آ سکیں گی جب کہ محدثہ اپنے کام کی وجہ سے اپنی زندگی کے بارے میں خوف زدہ ہیں۔
فرخندہ نے خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کو ایک خط دکھایا جو ان کے مطابق، طالبان کی نئی وزارت امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی جانب سے سیلون کو بند کرنے کی وارننگ ہے۔
اس وارننگ سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ جب تک وہ یہاں آ کر میرے گلے پر چھری نہیں پھیر دیتے میں یہیں رہوں گی۔