امریکی صدر جو بائیڈن نے بھوک پر وائٹ ہاؤس کی پچاس سال میں ہونے والی پہلی کانفرنس کا آغاز کرتے ہوئے امریکہ میں 2030 تک بھوک کے خاتمے اور خوراک سے منسلک بیماریوں میں کمی کے لئے متعدد اہداف طے کیے ۔
اس کانفرنس میں ماہرین نے اس بارے میں گفتگو کی کہ دنیا بھر میں خوراک کی سب سے زیادہ بین الاقوامی معاونت فراہم کرنے والا ملک اپنے لوگوں کو کس طرح بہتر طور پر خوراک فراہم کر سکتا ہے۔
امریکی محکمہ زراعت کے اعداد و شمار کے مطابق، ہر 10 میں سے ایک امریکی گھرانہ خوراک کے عدم تحفظ کا شکار ہے۔
خوراک کی مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ اس تعداد میں 9 ملین امریکی بچے شامل ہیں - یہ آبادی کا وہ حصّہ ہے جس پربائیڈن نے اپنے خطاب میں خصوصی طور پر زور دیا۔
SEE ALSO: امریکہ: اسکولوں میں مفت خوراک کی فراہمی، وائٹ ہاؤس کی پرائیویٹ سیکٹر سے 8 ارب ڈالر عطیات توقع
انہوں نے کہا ،" ابھی گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ میں نے اقوام متحدہ میں ان وعدوں پر بات کی جو ہم دنیا بھر میں خوراک کے عدم تحفظ سے نمٹنے کے لیے کر رہے ہیں۔کیوں کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں او ر ہمارے ملک کی ہر ریاست میں ، اس سے قطع نظر کہ ہمیں اور کیا چیزیں منقسم کرتی ہیں، اگر کوئی والدین ایک بچے کو خوراک فراہم نہیں کر سکتے تو ان کے لیے اور کوئی چیز اہمیت نہیں رکھتی ۔
بدھ کے روز بائیڈن نے وفاقی حکومت کے متعدد اقدامات اور پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کے لیے آٹھ ارب ڈالر کے وعدوں کا اعلان کیا ۔ ان میں اسکولوں کے کھانوں میں اضافہ اور بچوں اور خاندانوں کے لیے خوراک سے منسلک سرکاری مراعات میں توسیع شامل ہیں۔
کانگریس سے فنڈنگ کی یقین دہانی بہت مشکل ہے ۔ری پبلکنز روایتی طور پر سماجی مسائل سے نمٹنے کے لیے غیر سرکاری ذرائع کی حمایت کرتے ہیں ۔ بھوک کے خاتمے کے علمبردار بھی کہتے ہیں کہ واشنگٹن یہ کام تنہا نہیں کر سکتا ۔
نیو یارک میں قائم ایک عالمی تنظیم ‘وائی ہنگر‘ کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ، نورین سپرنگسٹیڈ نے وی او اے کو زوم کے ذریعے بتایا کہ " وفاقی حکومت بہت سے کام کر سکتی ہے لیکن بھوک کا خاتمہ در حقیقت وفاقی حکومت ، ریاستی حکومت ، مقامی حکومت ، کارپوریشنز ، فلاحی اداروں اور تمام سول سوسائٹی کی مشترکہ کوشش ہونی چاہئے۔
SEE ALSO: بھوک کا عالمی بحران ، 34 کروڑ سے زیادہ افراد کو شدید بھوک اورقحط کا خطرہ ہے، عالمی ادارہ خوراکپینڈیمک کے دوران اور یوکرین پر روسی حملے سے بھی خوراک کے عدم تحفظ میں اضافہ ہوا ۔غیر منافع بخش ادارے ، فوڈ ٹینک کی سر براہ ڈینیئل نیلن برگنے کہا ،" پینڈیمک اور یوکرین کے خلاف جنگ نے ہمیں دکھایا ہے کہ عالمی سپلائی چینز بہت کمزور ہیں ، اور اگر ہم ان پر مکمل طور پر انحصار کر رہے ہیں تو ہم خود کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ "
ہمیں حکومتوں سے، پرائیویٹ سیکٹر اور علاقائی اور مقامی سپلائی چینز سے سے مزید سرمایہ کاری درکار ہے ، تاکہ خوراک کو ادھر سے ادھر لے جانے کے مزید طریقے دستیاب ہوں ۔ سپرنگسٹیڈ نے کہا کہ خوراک کو سستا بنانا صرف اس چیلنج سے نمٹنے کا ایک حصہ ہے" ۔
انہوں نے کہا کہ معاشی انصاف کو یہاں د ر حقیقت ایک ستون ہونا چاہئے ، اور اس کے لیے کم سے کم اجرت میں اضافہ اہم ہے ۔