امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے نو ارب ڈالر سے زائد کی مالیت سے تیار ہونے والی 'جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ' کے ذریعے زمین سے اربوں نوری میل دُور کہکشاؤں کی پہلی رنگین تصویر کا اجرا کر دیا ہے۔
پیر کو وائٹ ہاؤس سے جاری کی جانے والی یہ تصویر اس جدید دُوربین سے حاصل ہونے والی تصاویر کا حصہ ہے جنہیں ناسا منگل کو میری لینڈ کے مضافات میں واقع گوڈارڈ خلائی اسٹیشن میں نمائش کے لیے رکھے گا۔
دنیا کی سب سے مہنگی اور جدید ترین جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ گزشتہ برس دسمبر میں خلا میں چھوڑی گئی تھی۔
ماہرین کے مطابق یہ ٹیلی اسکوپ کائنات سے متعلق مزید رازوں سے پردہ اُٹھانے سمیت اربوں برس قبل وجود میں آنے والی کہکشاؤں اور ستاروں سے متعلق مزید معلومات فراہم کرے گی۔
صدر بائیڈن کی جانب سے اس تصویر کے اجرا کے موقع پر ناسا کے سربراہ بل نیلسن، نائب امریکی صدر کاملا ہیرس اور دیگر حکام موجود تھے۔
پہلی تصویر میں ساڑھے چار ارب سال قبل وجود میں آنے والی کہکشاؤں کے ایک جھرمٹ کو دکھایا گیا ہے جسے اسمیکس 0723 کا نام دیا گیا ہے۔
ناسا کے سربراہ بل نیلسن کا کہنا تھا کہ تصویر میں دیکھی جانے والی کہکشاؤں کے عقب میں ایک دھندلی روشنیوں کا ایک مجموعہ دکھائی دے رہا ہے جس کے بارے میں یہ خیال ہے کہ یہ ساڑھے 13 ارب برس قبل وجود میں آنے والے ستارے اور کہکشائیں ہیں۔ یہ بگ بینگ سے 80 کروڑ برس بعد کی ہیں۔
اس موقع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے صدر بائیڈن نے کہا کہ "یہ ہماری کائنات کی تاریخ جاننے کی ایک کھڑکی ہے اور آج ہم اس کھڑکی کے اس پار پہلی جھلک کا نظارہ کر رہے ہیں، یہ حیران کن ہے۔"
صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ یہ تصویر ظؓاہر کرتی ہے کہ امریکہ بڑے کام کر سکتا ہے، یہ امریکہ کے عوام کے اس عزم کا بھی اظہار ہے کہ ہم اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر کچھ بھی حاصل کر سکتے ہیں۔
بل نیلسن کا کہنا تھا کہ جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ کے ذریعے نظر آنے والی روشنی ہزاروں کہکشاؤں کا مجموعہ ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ریت کے زرے کو ہم ایک ہاتھ کے فاصلے سے دیکھ رہے ہوں۔
خیال رہے کہ تیس برس قبل خلا میں بھیجی گئی دُوربین 'ہبل' زمین سے 340 میل کی دُوری پر چکر لگا رہی ہے۔
ماہرین پراُمید ہیں کہ 'جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ' خلا میں گیس اور دُھول کے بادلوں میں بھی باآسانی سفر کر کے ستاروں کے وجود میں آنے کے عرصے کا تعین کر سکے گی۔
ماہرین پراُمید ہیں کہ 'جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ' کے آلات کئی نئے سیاروں میں زندگی کے آثار کا کھوج لگانے جب کہ مریخ اور زخل کی برفیلی سطح کے معائنے میں بھی مددگار ہوں گے۔