پاکستان میں مختلف عسکری کارروائیوں کی ذمے داری قبول کرنے والی کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی(بی ایل اے) نے پاکستان کی فوج کوپہلی بار قیدیوں کے تبادلے کی پیش کش کی ہے۔
یہ پیش کش ایسے وقت میں کی گئی ہے جب بلوچستان کے علاقے ہرنائی سے مبینہ طور پر دو سیکیورٹی اہلکار اغوا ہوگئے تھے۔ بی ایل اے کا دعویٰ ہے کہ اہلکار ان کی تحویل میں ہیں جب کہ سیکیورٹی ذرائع بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ان کے ایک افسر جے سی او کلیم اللہ کو اغوا کیا گی ہے۔ تاہم دوسرے شخص کی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔
بی ایل اے کے ترجمان جیئند بلوچ نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بی ایل اے پاکستان کی فوج کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے لیےتیار ہے۔ انہوں نے اپنے بیان کے ہمرا ہ مغوی اہلکار کی تصاویر بھی جاری کی ہیں۔
بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ'' بی ایل اے کی سینئر کمانڈ کونسل نے اس بات کی منظوری دی ہے کہ بین الاقوامی کنونشنز اور عالمی جنگی اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے پاکستان کی فوج کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کا عمل شروع کیا جاسکتا ہے۔''
بی ایل اے کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ''وہ بلوچ سیاسی اسیروں کی رہائی کے بدلے سیکیورٹی فورسز کے دونوں اہلکاروں کو رہا کرنے کے لیے تیار ہیں۔تاہم اگر اس دوران پاکستان کی فوج نے کسی قسم کی 'جارحیت' کی کوشش کی تو ان قیدیوں کو بلوچ قومی عدالت سے دی جانے والی سزا پر فی الفور عمل کیا جائے گا۔''
SEE ALSO: ہرنائی میں فوج کا ہیلی کاپٹر ’فلائنگ مشن‘ میں تباہ، بی ایل اے کا نشانہ بنانے کا دعویٰبی ایل اے کی اس پیش کش پر بلوچستان حکومت یا سیکیورٹی اداروں کی جانب سے کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا ہے۔وائس آف امریکہ نے بلوچستان حکومت کے ترجمان فرح عظیم شاہ سے رابطے کی کوشش کی ، تاہم ان کا جواب موصول نہیں ہوا۔
واضح رہے کہ 25 ستمبر کو بلوچستان کے ضلع ہرنائی میں فوج کا ایک ہیلی کاپٹرگرکر تباہ ہوگیا تھا، جس میں دو پائلٹس سمیت چھ فوجی اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔
فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ہرنائی میں ہیلی کاپٹر فلائنگ مشن کے دوران گر کرتباہ ہوا۔تاہم بی ایل اے نے دعویٰ کیا تھا کہ فوج کا ہیلی کاپٹر انہوں نے گرایا ہے۔
ساتھ ہی بی ایل اے کے ترجمان نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بھیجی گئی ایک ای میل میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے زردالو کے قریب کارروائی میں پاکستان کے دو سیکیورٹی اہلکاروں کو حراست میں لیا ہے۔ بی ایل اے نے کہا تھا کہ ان سیکیورٹی اہلکاروں کی حراست کے بعد پاکستان کی فوج کا ہیلی کاپٹر وہاں پہنچا تھا جسے ہرنائی میں خوست کے قریب گرا دیا گیا۔
بی ایل اے کے ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ دوران تفتیش جے سی او کلیم اللہ نے یہ تصدیق کی کہ وہ گزشتہ 19 برسوں سے سبی اور ملحقہ علاقوں میں تعینات رہے ہیں۔ وہ ایک درجن سے زائد فوجی آپریشنز میں براہ راست ملوث رہےہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ بلوچستان پولیس کے محکمۂ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل نے ایک اعلامیے میں یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ کالعدم تنظیموں کی جانب سے تخریبی کارروائی کا اندیشہ ہے جس میں سرکاری افسران کے اغوا کے واقعات ہو سکتے ہیں۔
اس سے قبل رواں سال جولائی میں ڈی ایچ اے کوئٹہ کے ایک حاضر سروس افسر لیفٹننٹ کرنل لئیق کو بلوچستان کے ضلع زیارت اور ہرنائی کے درمیان پہاڑی علاقے ور چوم میں ان کے ایک رشتہ دار کے ساتھ اغوا کرلیا گیا تھا جس کی ذمہ داری بی ایل اے نے قبول کی تھی۔
بعدازاں لیفٹننٹ کرنل لئیق اور ان کے رشتہ دار کی لاشیں زیارت کے پہاڑی سلسلے سے ملی تھیں۔
'مغوی اہلکاروں کے خاندانوں کی تکلیف کا احساس ہے'
دوسری جانب بلوچستان میں لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے کام کرنے والی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نے بی ایل اے کی جانب سے اس پیش کش کا خیر مقدم کیا ہے۔
SEE ALSO: زیارت سے اغوا ہونے والے ڈی ایچ اے کوئٹہ کے افسر کی لاش برآمد
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے تنظیم کے چیئرمین نصر اللہ بلوچ نے کہا ہے کہ کالعدم تنظیم کی جانب سے پاکستان کی فوج کے دو اہلکاروں کو اغوا کے بعد اپنی تحویل میں رکھنےسے ان اہلکاروں کے لواحقین پریشان ہیں اور اذیت کا شکار ہوں گے۔کیوں کہ اس سے قبل بھی کالعدم تنظیم نے جن اہلکاروں کو اغوا کیا انہیں بعد ازاں ہلاک کردیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ جس طرح بلوچستان میں لاپتا ہونے والے افراد کے لواحقین ان کے غم میں مبتلا ہیں، اسی طرح ان اہلکاروں کے گھر والے بھی پریشان ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ"ہم پر یہ دن گزرے ہیں اس لیے ہمیں ان خاندانوں کی تکلیف کا اندازہ ہے۔''
انہوں نے کہا کہ ''ہم مزاحمتی تنظیم سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ ان مغوی اہلکاروں کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رہا کریں تاکہ ان کے خاندانوں کی اذیت ختم ہو۔''
نصر اللہ بلوچ نے کہا کہ ''ہم پاکستان کی ریاست سے بھی یہی درخواست کرتے ہیں کہ جتنے بلوچ افراد لاپتا ہیں انہیں بھی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رہا کیا جائے کیوں کہ ان کے گھر والے بھی ان کی زندگیوں کے لیے پریشان ہیں۔''
ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی بھی لاپتا شخص ریاست کا ملزم ہے تو اس کے خلاف مقدمہ درج کرکے عدالتوں میں پیش کیا جائے۔