پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان منگل کو مختصر دورے پر کراچی پہنچے اور انہوں نے ایک تقریب میں شرکت کی جس میں صوبائی حکومت اور مقامی قیادت نظر نہیں آئی۔ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے مطابق انہیں وزیرِ اعظم کے دورے کی مصروفیات سے مکمل لا علم رکھا گیا۔
وزیرِ اعظم کے لگ بھگ تین گھنٹے پر محیط اس دورے سے متعلق بتایا گیا ہے کہ ان کی زیرِ صدارت 'کراچی ٹرانسفارمیشن پلان' کے حوالے سے ایک اجلاس کے دوران کراچی میں مختلف ترقیاتی منصوبوں کی پیش رفت کا جائزہ لیا گیا۔
اس حوالے سے جاری ایک اعلامیے کے مطابق وزیرِ اعظم کو کراچی کے تین بڑے نالوں (محمود آباد، گجر اور اورنگی) ملیر اور لیاری کے دریاؤں اور نالوں کے اطراف سڑکوں کی تعمیر، سیوریج سسٹم اور یوٹیلیٹیز پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔
صوبائی وزیر ناصر حسین شاہ کا کہنا ہے کہ ان کے علم میں نہیں کہ وزیرِ اعظم کے دورے کے دوران 'کراچی ٹرانسفارمیشن پلان' پر اجلاس ہوا بھی یا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملک کے معاشی حب سے متعلق وزیرِ اعظم کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ وہ کراچی کو صرف چند گھنٹے دیتے ہیں اور اجلاس ہوتا ہے تو وزیرِ اعلیٰ سندھ کو بھی نہیں بلاتے۔
ناصر حسین شاہ کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم ہمیں بلائیں یا نہ بلائیں لیکن کراچی سے متعلق وہ جو اعلانات کرتے ہیں اس پر عمل کر دیں۔
یاد رہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان نے گزشتہ برس دورۂ کراچی کے موقع پر 'کراچی ٹرانسفارمیشن پلان' کے تحت شہر میں 1100 ارب روپے کے پیکج کا اعلان کیا تھا۔
SEE ALSO: وزیرِ اعظم کا کراچی کے لیے 1100 ارب روپے کے پیکیج کا اعلانترجمان سندھ حکومت مرتضیٰ وہاب کہتے ہیں کہ اعلانات تو 2018 سے ہو رہے ہیں۔ وزیرِ اعظم کو اعلان کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ کیوں کہ جب کام ہو جائے تو شہریوں کو چیز نظر آجائے گی۔ ان کے بقول صرف گرین لائن ریپڈ بس منصوبے کے بارے میں کئی بار کہا گیا کہ وہ تکمیل کے مراحل میں ہے لیکن اب تک یہ مکمل نہیں ہوسکا۔
وزیرِ اعظم عمران خان کے صوبۂ سندھ کے دورے کے موقع پر یہ پہلا موقع نہیں کہ صوبائی حکومت اور وہاں برسر اقتدار جماعت کے کسی بھی رہنما سے ملاقات کرنا وزیرِ اعظم کے دورے کے شیڈول میں شامل نہیں تھا۔
گزشتہ برس ستمبر میں وزیرِ اعظم عمران خان اور وزیرِ اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے ترقیاتی کاموں کے لیے ایک ساتھ مل کر کام کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا جس کے بعد 'پراونشل کوآرڈینیشن اینڈ امپلی مینٹیشن کمیٹی' قائم ہوئی تھی۔ لیکن دونوں رہنماؤں کی شہر کے ترقیاتی کاموں سے متعلق کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ جب کہ سیاسی طور پر بھی دونوں جماعتوں کے درمیان فاصلے برقرار ہیں۔
'وفاق اور سندھ کی لڑائی میں کراچی پِس جاتا ہے'
صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں کہ کراچی کے معاملات پر عمران خان کو جس قدر توجہ دینی چاہیے تھی وہ نہیں دے پا رہے۔ اور اس کی بڑی وجہ یہ لگتی ہے کہ سندھ میں ان کی جماعت کی حکمرانی نہ ہونے کی وجہ سے یہاں اختیارات محدود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر وزیرِ اعظم سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر سندھ حکومت کے ساتھ کوئی کوآرڈینیشن بناتے تو بہتر ہوتا حالاں کہ کراچی میں کوآرڈینیشن کمیٹی میں ابتدائی طور پر یہی طے پایا تھا کہ مل کر کام کیا جائے گا لیکن وہ ہو نہیں پارہا۔
مظہر عباس کہتے ہیں جب تک مل کر کام نہیں ہوگا ان کے خیال میں کراچی میں تیز رفتاری سے کام کی توقع نہیں رکھی جاسکتی۔
SEE ALSO: وفاق اور سندھ میں تنازع: کراچی ترقیاتی پیکج کے لیے کون کتنے پیسے دے گا؟ان کے بقول وفاق اور صوبائی حکومت کے درمیان رابطوں کے فقدان کی وجہ سے کراچی میں منصوبے التوا کا شکار ہیں اور دونوں کی لڑائی کی وجہ سے شہر کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
مظہر عباس کہتے ہیں گرین لائن منصوبے کی تکمیل اور اسے چلانے میں چار پانچ سال کا اضافی عرصہ لگ چکا ہے۔ جتنا کراچی میں منصوبے التوا کا شکار ہوتے ہیں شاید کسی اور شہر میں ہوتے ہوں۔
تجزیہ کار نذیر لغاری کے مطابق مل کر کام کرنے کے لیے وفاق اور سندھ حکومت میں بصیرت کی صلاحیت کی کمی ہے۔ اور یہ کم نظری اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ آگے بڑھ کر سیاسی دانش مندی کا مظاہرہ کیا جائے۔
دوسری جانب تحریک انصاف کے رہنما اور سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حلیم عادل شیخ کا کہنا ہے کہ کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کے تحت 1100 ارب روپے کے منصوبوں میں وفاقی حکومت کا شیئر 62 فی صد ہے۔ اور اس کے تحت 35 ارب روپے نالوں سے تجاوزات ہٹانے اور ان کی صفائی پر خرچ ہو رہے ہیں اور اس منصوبے کا 80 فی صد کام مکمل کیا جاچکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ شہر کو اضافی پانی کی فراہمی کے منصوبے 'کے فور' پر 13 سال میں کوئی کام نہیں ہوا اور شہر کو ایک بوند پانی کی نہیں ملی، یہ منصوبہ اب صوبائی حکومت سے لے کر وفاقی ادارے واپڈا کو دے دیا گیا ہے جس نے اس پر کام شروع کر دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا سندھ حکومت نے گزشتہ 13 برسوں میں صوبے میں ایک بس نہیں چلائی، لیکن وفاقی حکومت کی تیار کردہ گرین لائن بس ریپڈ سسٹم کی بسیں چینی بندرگاہ پر آنا شروع ہو گئی ہیں اور یہ اسی سال چلنے لگ جائیں گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
حلیم عادل شیخ کے بقول کراچی کی سڑکوں پر وفاقی حکومت کی جانب سے فراہم کردہ 542 فائر ٹینڈرز چلتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ ہمارے ذمے جو کام لگائے گئے تھے وہ تکمیل کے مراحل میں ہیں لیکن خود صوبائی حکومت نے کچھ نہیں کیا۔
صوبائی وزیر ناصر حسین شاہ نے دعویٰ کیا ہے کہ کراچی میں بلاتفریق عوام کی خدمت کی جارہی ہے۔ شہر میں سڑکیں، انڈر پاسز، فلائی اوورز تعمیر کیے گئے اور پانی کے مسائل حل کرنے میں حکومت مصروفِ عمل ہے۔
ان کے بقول پاکستان پیپلز پارٹی عوام کی خدمت پر یقین رکھتی ہے اور اس مقصد کے لیے صوبائی حکومت کراچی کے شہریوں کو ہر ممکن سہولیات فراہم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
کراچی ٹرانسفارمیشن پلان اجلاس میں کیا ہوا؟
وزیرِ اعظم عمران خان کی زیرِ صدارت کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کے جائزہ اجلاس پر جاری اعلامیے کے مطابق وزیرِ اعظم کو جاری ترقیاتی کاموں پر بریفنگ دی گئی۔ چئیرمین نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے بتایا کہ نالوں کا سروے مکمل کر لیا گیا ہے اور تجاوزات ہٹانے کا کام بھرپور طریقے سے جاری ہے۔ وزیرِ اعظم کو بتایا گیا کہ شہر کے اہم نالوں کا بقیہ سول ورکس جون 2022 تک مکمل کر لیا جائے گا۔
اعلامیے کے مطابق وزیرِ اعظم کو گرین لائن اور اورنج لائن بس ریپڈ منصوبے پر ہونے والی پیش رفت پر بھی بریفنگ دی گئی۔ حکام کے مطابق گرین لائنز اس سال اکتوبر سے فعال ہو جائے گی اور اس مقصد کے لیے ستمبر 2021 کے وسط تک چین سے 80 بسیں پہنچ جائیں گی۔
اسی طرح حکومت سندھ کی درخواست پر ایس آئی ڈی سی ایل اورنج لائن کے لیے 20 بسیں منگوائی جا رہی ہیں جو اس سال دسمبر تک پہنچ جائیں گی۔
اجلاس میں کراچی کے شہریوں کو پانی کی فراہمی کے منصوبے کے فور پر چئیرمین واپڈا کی جانب سے بریفنگ دی گئی۔ وزیرِ اعظم کو بتایا گیا کہ کراچی میں پانی کی شدید قلت کو پورا کرنے کے لیے حکومت سندھ کی جانب سے کے فور کا منصوبہ تشکیل دیا گیا اور اس پر حکومت سندھ کام کر رہی تھی جب کہ اس منصوبے کے لئے مالی وسائل سندھ حکومت اور وفاقی حکومت کی جانب سے فراہم کیے جا رہے تھے۔ لیکن یہ منصوبہ ایک دہائی سے تعطل کا شکار رہا۔ اب وفاقی حکومت اس منصوبے کو مکمل کر رہی ہے۔
وزیرِ اعظم کو بتایا گیا کہ کے فور منصوبہ اکتوبر 2023 تک مکمل کر لیا جائے گا۔
اجلاس میں وزیر اعظم کو فریٹ کوریڈور کیماڑی تا پپری مارشلنگ یارڈ اور ماڈرن کراچی سرکلر ریلوے (کے سی آر) منصوبے پر بھی بریفنگ دی گئی۔ وزیرِ اعظم کو بتایا گیا کہ پچاس کلومیٹر طویل کراچی پورٹ تا پپری فریٹ کوریڈور میں کوریڈور کی تعمیر، سڑک کو دو رویہ کیا جانا اور اپ گریڈیشن شامل ہے۔