عمران خان چاہتے ہیں فوج ڈولی میں بٹھا کر انہیں وزیرِ اعظم ہاؤس پہنچائے: احسن اقبال

حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ کے سیکریٹری جنرل اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے کہ عمران خان چاہتے ہیں کہ فوج انہیں ڈولی میں بٹھا کر وزیرِ اعظم ہاؤس پہنچا دے اور ان کے مخالفین کو جیلوں میں ڈال دے، پھر وہ پاک فوج زندہ باد کا نعرہ لگائیں گے۔

احسن اقبال نے وائس آف امریکہ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ فوج اب سیاست میں کردار ادا کرنا نہیں چاہتی اور اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے ساتھ ویسے نہیں کھڑی جیسے 2018 کے انتخابات میں ساتھ تھی۔

انہوں نے کہا کہ عمران خود کہہ چکے ہیں کہ وہ اپنے دورِ حکومت میں حکومتی معاملات سے اسمبلی چلانے تک فوج سے مدد لیتے تھے اور اب مقتدر قوتیں وہ کام نہیں کر رہیں اس لیےتحریکِ انصاف کے سربراہ قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف زہر آلود مہم چلا رہے ہیں۔

سابق وزیرِ اعظم عمران خان یہ الزامات عائد کرتے رہے ہیں کہ ان کی حکومت کے خاتمے کے پیچھے موجودہ حکمرانوں سمیت اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ تھا۔تاہم وہ حالیہ عرصے کے دوران مذاکرات کے اعلانات بھی کر چکے ہیں۔

عمران خان کی جانب سے مذاکرات کی پیش کش کو خوش آمدید کہتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ عمران خان کو چاہیے کہ وہ بات چیت سے قبل عدالتی احکامات پر عمل کریں۔

احسن اقبال نے کہا کہ عمران خان سے بات چیت کے لیے پاکستان کے آئین و قانون کو یرغمال نہیں بنا سکتے۔جمہوریت میں نظریاتی اختلافات کے باوجود ملک کی خاطر ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوتا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

سپریم کورٹ کو انتخابات کرانے کے فیصلے پر نظرِ ثانی کرنی چاہیے: احسن اقبال

لاہور میں عمران خان کی رہائش گاہ زمان پارک پر پولیس کے دو روز تک جاری رہنے والے آپریشن سے متعلق احسن اقبال نے کہا کہ عمران خان کو گرفتار کرنا حکومت کی ترجیح ہے نہ ہی ایسی کوئی منصوبہ بندی۔ البتہ چیئرمین پی ٹی آئی ہر وہ اقدام کررہے ہیں کہ ریاست ان کے خلاف کارروائی پر مجبور ہو جائے۔

ان کے بقول، زمان پارک میں پیدا شدہ صورتِ حال کے ذمے دار عمران خان خود ہیں کیوں کہ وہ عدالتوں کے طلب کرنے کے باوجود پیش نہیں ہوتے۔

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کا مؤقف ہے کہ حکومت , پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات سے قبل انہیں گرفتار کرنا چاہتی ہے تاکہ ان کی جماعت کو الیکشن سے دور رکھا جائے۔

احسن اقبال نے عمران خان کے الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد پولیس عدالتی احکامات کی پیروی کے لیے زمان پارک میں تھی لیکن نہتے پولیس اہلکاروں پر پی ٹی آئی کارکنوں کی جانب سے پتھراؤ کیا گیا اور پٹرول بم سے حملہ کیا گیا۔یہ کھلم کھلا لاقانونیت ہےاور ایسے گروہوں کی کارروائیاں ہیں جو مسلح جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں۔

'عمران خان عدلیہ کی چھتری کے نیچے ہیں'

وزیرِ منصوبہ بندی نے الزام عائد کیا کہ عمران خان عدالتی احکامات کی نفی کرتے ہیں اور اس پر عدلیہ ہی انہیں چھتری فراہم کرتی ہے اور اس وقت بھی عمران خان عدلیہ کی ریلیف کی چھتری کے نیچے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ عدلیہ نے کرنا ہے کہ آیا اسے اپنا وقار ایک شخص کی خاطر داؤ پر لگانا ہے۔

احسن اقبال نے کہا کہ نواز شریف بطور وزیر اعظم اور شہباز شریف بطور وزیر اعلی عدالتوں اور نیب میں پیش ہوتے رہے ہیں۔ پاکستان میں عمران خان سے پہلے کوئی ایسی مثال نہیں کہ کوئی سیاسی رہنما کہے کہ میں عدالت کے احکامات نہیں مانتا۔

حالیہ عرصے کے دوران مسلم لیگ (ن) تواتر کے ساتھ یہ الزامات عائد کرتی رہی ہے کہ عدالتیں عمران خان کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہیں۔ ان الزامات کے برعکس مختلف مقدمات میں عدالتوں نے عمران خان کو طلب کر رکھا ہے۔


انتخابات سے پہلے زیادتی کے ازالہ کا بیانیہ کیا ہے؟

'پہلے انصاف پھر انتخاب' کے مسلم لیگ (ن) کے نعرے پر احسن اقبال نے کہا کہ ان کی جماعت اور قیادت کے ساتھ 2018 کے انتخابات میں جو زیادتیاں اور ناانصافیاں کی گئیں ان کا تاحال ازالہ نہیں کیا گیا۔ ان کے بقول جب تک ان زیادتیوں کی تلافی نہیں کی جاتی انتخابات کے لیے برابری کے میدان کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔

مسلم لیگ (ن) کی چیف آرگنائزر اور سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز حالیہ دنوں میں جلسوں کے دوران یہ کہتی رہی ہیں کہ پہلے انصاف ہوگا پھر انتخاب ہوگا۔

مسلم لیگ (ن) کے اس نئے بیانیے پر بات کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ ن کی جماعت کا بیانیہ پاکستان کو دوبارہ کھڑا کرنے کا ہے۔پاکستان کو دوبارہ اسی طرح کھڑا کریں گے جیسے 2013 میں ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالا تھا۔

SEE ALSO: عمران خان کے وارنٹ: 'سیاست بند گلی میں داخل ہو چکی'

پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات پر بات کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ پاکستان کی 75 سالہ تاریخ اور آئینی روایت رہی ہے کہ صوبائی اسمبلیوں کے اور قومی انتخابات ایک ساتھ ہوتے ہیں۔ ان کےبقول اگر صوبوں اور وفاق میں الگ الگ انتخابات ہوئے تو وفاق پر پنجاب کی اجارہ داری قائم ہوجائے گی۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کو چاہیے کہ دونوں صوبوں میں الگ انتخابات کروانے کے عجلت میں دیے گئے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے کیوں کہ انتخابات کی صورت میں ملک میں دائمی سیاسی بحران پیدا ہوجائے گا۔

انہو ں نے کہا کہ اگر پنجاب کے الیکشن کے ذریعے قومی انتخابات سے چھ ماہ پہلے کسی سیاسی جماعت کی حکومت کو صوبے میں بٹھا دیں گے تو اس کا مطلب ہوگا کہ قومی اسمبلی کے انتخابات کو ہمیشہ کے لیے صوبہ پنجاب کے تسلط میں دے دیا جائے۔

خیال رہے کہ قومی اسمبلی کی 342 کے ایوان میں سے 175 یعنی نصف سے زائد نشستیں پنجاب سے ہیں۔

احسن اقبال نے کہا کہ الگ الگ انتخابات کے نتیجے میں جو جماعت پنجاب میں حکومت کررہی ہوگی وہ وسائل اور انتظامی اختیارات استعمال کرتے ہوئے قومی انتخابات پر اثر انداز ہوگی اور جس کو چاہے گی وہی وفاق میں حکومت بنا سکے گی۔

ان کے بقول یہ بہت خطرناک اقدام ہوگا جس سے دوسرے صوبوں میں محرومی کا احساس بڑھے گا جس سے وفاق کی بنیاد حل سکتی ہے۔

وفاقی وزیر نے مسلم لیگ (ن) ہر وقت الیکشن کے لیے تیار ہے اور انتخابات میں پی ٹی آئی کا مقابلہ کرے گی۔