پاکستان فوج کے سینئر ترین لیفٹننٹ جنرل عاصم منیر 29 نومبر کو پاکستان فوج کے 11ویں سربراہ کے طور پر اعزازی چھڑی وصول کرکے آئندہ تین سال تک اس عہدے پر کام کریں گے۔
جنرل عاصم منیر کے آرمی چیف بننے کے مرحلے کے دوران خاصی قیاس آرائیاں ہوتی رہیں تاہم و زیراعظم شہباز شریف نے جمعرات کو انہیں آرمی چیف کے منصب کے لیے مقرر کرنے کی سفارش صدرِمملکت ڈاکٹر عارف علوی کو ارسال کر دی ، جس پر انہوں نے ان کی تعیناتی کی سمری پر دستخط کردیے۔
ملک میں سیاسی اور اقتصادی عدم استحکام
ملکی حالات پر نظر ڈالیں تو بیشتر مبصرین کا یہ خیال ہے کہ نئے آرمی چیف کو فوج میں اس اعلیٰ ترین تقرری کے بعد بہت سے اہم چیلنجز کا سامنا ہوگا، خاص طور سے ملک کی معاشی اور سیاسی حالات کے تناظر میں۔
جنرل عاصم منیر کے لیے سرحدی صورتِ حال ، ملک میں اندرونی سیاسی بحران، فوج کےغیرسیاسی ہونے کی پالیسی کو برقرار رکھنا، ففتھ جنریشن وار فیئر،فوج کی امیج بلڈنگ سمیت بہت سے معاملات ان کی توجہ کے طالب رہیں گے۔
مبصرین کے مطابق اس وقت سب سے بڑا مسئلہ پاکستان میں سیاسی اور اقتصادی عدم استحکام ہے۔ سیاسی استحکام نہ ہونے سے ملکی معیشت مشکلات میں گھری ہوئی ہے اور عوام پر اس کا براہِ راست اثر پڑ رہا ہے۔
SEE ALSO: کیا پاکستان میں فوج کا سیاست میں کردار واقعی ختم ہو سکتا ہے؟نئے آرمی چیف کو درپیش چیلنجز سے متعلق پاکستان فوج کے سابق افسر اور تجزیہ کار بریگیڈیئر ریٹائرڈ حارث نواز کہتے ہیں کہ اس وقت سب سے بڑا چیلنج ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام ہے اور سیاسی ہیجان کے باعث ملک شدید مشکلات سے دوچار ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی خراب ہوتی اقتصادی حالت کا پاکستان فوج پر بھی برا اثر پڑسکتا ہے کیوں کہ قومی خزانے میں صرف آٹھ اعشاریہ نو ارب ڈالر پڑے ہیں اور پیسہ نہ ہونا پاکستان فوج کے بجٹ پر اثرانداز ہوسکتا ہے۔
'فوج کا امیج بہتر بنانا بڑا چیلنج ہو گا'
حارث نواز کے بقول، "آرمی کو دیکھنا ہوگا کہ چین، امریکہ اور سعودی عرب سمیت دیگر ممالک سے تعلقات کیسے رہتے ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ سے نکالنے کے لیے فوج نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔اس کا کریڈٹ جنرل باجوہ کو جاتا ہے اور اب جنرل عاصم منیرکو دیکھنا ہوگا کہ دوبارہ منی لانڈرنگ کا ایسا کوئی معاملہ یا صورتِ حال نہ پیدا ہو جائے جو پاکستان کو کسی مشکل صورتِ حال سے دوچار کر دے۔
بریگیڈیئر ریٹائرڈ حارث نواز کے مطابق سوشل میڈیا پر فوج کو بہت زیادہ بدنام کیا گیا اور بدقسمتی سے جنرل باجوہ کے آخری چند ماہ میں اس میں بہت زیادہ تیزی آئی اس تمام صورتِ حال کو بہتر بناتے ہوئے عوامی سطح پر فوج کا امیج بہتر بنانا بھی جنرل عاصم منیر کے لیے ایک چیلنج ہو گا۔
دفاعی تجزیہ کار ماریہ سلطان کے نزدیک اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ملک کی اقتصادی صورتِ حال ہے کیوں کہ معیشت درست نہ ہونے کی وجہ سے ملک کو بہت سے مسائل درپیش ہیں جنہیں بہتر بنانے میں فوج اپنا کردار ادا کرسکتی ہے۔
SEE ALSO: پاکستان میں فوج کے سربراہان: کون، کب اور کتنا اہم رہا؟وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سرحدوں پر اس وقت بھارت کے ساتھ کشمیر کا مسئلہ ہے جس پر غور کرنا ہوگا اور اس کے علاوہ افغانستان کی صورتِ حال اور غیرروایتی مسائل کو دیکھنا ہوگا۔
تجزیہ کار رسول بخش رئیس بھی سمجھتے ہیں کہ جنرل عاصم منیر کے لیے اس وقت سب سے بڑا چیلنج پاکستان فوج کے امیج کا ہے۔ ان کے بقول ففتھ جنریشن وارفئیر میں گزشتہ چھ ماہ کے دوران پاکستان فوج کو بہت نقصان ہوا ہے اور اب جنرل عاصم منیر کو ایک بار پھر عوام کی نظروں میں پاکستان فوج کا وقار بحال کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ فوج کو سیاست سے دور رکھنا اہم ہے کیوں کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کی طرف سے ان پر دباؤ ہوگا کہ حکومت اپوزیشن کے خلاف اقدامات میں ان کی حمایت چاہے گی جب کہ اپوزیشن کی خواہش ہو گی کہ وہ سیاسی معاملات سے الگ رہیں۔ اگر سیاسی جماعتوں سے متعلق فوج کے برتاو میں میں توازن نہ رہا تو نئے جنرل کو بھی متنازع بنا دیا جائے گا۔
'سیاسی عدم استحکام کو ختم کیا جائے'
تجزیہ کار بریگیڈیئر ریٹائرڈ حارث نواز کہتے ہیں کہ سیاسی عدم استحکام اور سیاسی ہیجان کے باعث ملک شدید مشکلات سے دوچار ہے۔ ایسی صورتِ حال میں جنرل عاصم منیر کے لیے سب سے اہم ہو گا کہ وہ تمام سیاسی جماعتوں کو جمہوری اندازمیں کسی فوجی مداخلت کے بغیر بٹھائیں اور ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام کو ختم کروائیں۔
دوسری جانب رسول بخش رئَیس سمجھتے ہیں کہ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سیاست میں عدم شمولیت کا جو طریقہ اپنایا تھا وہ غلط ہے۔ ان کے بقول ماضی میں جنرل کاکڑ کا ایک فارمولہ تھا جس کے تحت فریقین کو ایک ساتھ بٹھا کر تصفیہ کروا دیا گیا تھا۔ اس وقت ایسی ہی سیاسی مداخلت ممکن ہے کہ تمام فریقین کو ایک ساتھ بٹھا کر ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام کو ختم کیا جائے۔
رسول بخش رئیس کہتے ہیں چیئرمین تحریکِ انصاف عمران خان اپنی عوامی مقبولیت کی وجہ سے کسی سے بات کرنا نہیں چاہتے اور ایسے میں شفاف الیکشن ہوتے ہیں تو دو سیاسی خاندانوں کو نقصان ہو سکتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
تجزیہ کار ماریہ سلطان نے کہا کہ سیاسی منظرنامہ جنرل باجوہ کے حالیہ بیان کے بعد سامنے آگیا ہے کہ اگر کوئی بھی بات چیت ہونی ہے تو وہ حکومت کے ذریعے ہونی ہے۔ اگر اس کا دارومدار مختلف افراد اور اداروں پر کیا جائے گا تو اس کا نتیجہ کچھ بہتر نہیں ہوگا۔
رسول بخش رئیس کے مطابق فوج کاروباری شخصیات اور حکومت کے درمیان پل کا کردار ادا کرکے ملکی معیشت کو سدھارنے میں مدد کر سکتی ہے۔ ان کے بقول پاکستان فوج ہمیشہ سے کاروباری شخصیات سے رابطے میں رہی ہے اور انہیں درپیش سیکیورٹی معاملات سمیت دیگر معاملات میں معاونت کرتی رہی ہے۔
رسول بخش رئیس نے کہا کہ اس وقت ملک کو بیرونی طور پر بھی خطرات درپیش ہیں جن میں افغانستان کی صورتِ حال پاکستان کے لیے سرِ فہرست ہے جہاں آئے روز سرحد پر کشیدگی دیکھی جاتی ہے۔ فوج کو ایسی پالیسی وضع کرنا ہوگی کہ افغانستان کے ساتھ معاملات بہتر ہوں۔ اس کے ساتھ عالمی سطح پر تمام ممالک بالخصوص دوست ممالک کے ساتھ تعلقات کو استحکام دینا ہوگا۔
آلے وقت میں ملکی حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں، اس کی واضح پیش گوئی ممکن نہیں، مگر اس پر بیشتر طور سے اتفاق پایا جاتاے کہ یہ چیلنجز گمبھیر اور پیچیدہ نوعیت کےہیں۔