پاکستان کے صوبہ پنجاب میں بچوں کی غیر اخلاقی ویڈیوز بنانے یا انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کرنے کے واقعات کے حوالے سے برطانیہ اور انٹرپول برازیل سمیت دیگر کی شکایات پر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے تفتیش کا دائرہ کار وسیع کر دیا ہے۔
ایف آئی اے نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ ایسے کیسز ملک بھر میں ہو سکتے ہیں لیکن رپورٹ صرف صوبہ پنجاب میں ہوتے ہیں۔
تحقیقاتی ادارے کے مطابق ملزمان عام طور پر پیسوں کی لالچ میں کم عمر بچوں کی برہنہ اور غیر اخلاقی تصاویر و ویڈیوز بناتے ہیں جنہیں وہ مختلف عالمی ویب سائٹس پر اپ لوڈ کرتے ہیں۔
ایف آئی اے پنجاب اِس وقت صوبے بھر میں چائلڈ پورنوگرافی سے متعلق مختلف کیسز پر کام کر رہی ہے۔
چائلڈ پورنوگرفی کی سزا کیا ہے؟
انسدادِ الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 کے مطابق کوئی بھی شخص کسی بچے کی برہنہ تصاویر یا ویڈیوز بناتا ہے تو ایسا کرنے والا، بنانے والا، فروخت کرنے والا، اسے اپنے پاس رکھنے والا اور اسے منتقل کرنے والا شخص جرم کا مرتکب ہو گا۔
اس جرم کی سزا سات سال قید یا پچاس لاکھ روپے جرمانہ یا دنوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔
اسی طرح اگر کوئی کسی بالغ شخص کی فحش تصویریں اور ویڈیوز بناتا ہے۔ اُنہیں پھیلاتا یا فروخت کرتا ہے تو وہ بھی جرم کا مرتکب کہلائے گا جس کی سزا تین سال قید یا 10 لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔
اگر کوئی شخص سوشل میڈیا یا انٹرنیٹ پر کسی کو ہراساں کرتا ہے۔ نازیبا گفتگو کرتا ہے۔ یا ایسا عمل کرتا ہے جس سے متاثرہ شخص یا خاتون کسی ذہنی دباؤ کا شکار ہوتی ہے تو ایسا کرنے والے شخص کو تین سال قید اور دس لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ایسے کیسز میں متاثرہ بچے کے والدین، سر پرست یا متاثرہ فرد حکام کو متعلقہ مواد انٹرنیٹ سے ہٹانے کے لیے بھی درخواست بھی دے سکتے ہیں۔
کیس کیسے رپورٹ ہوتے ہیں؟
ایف آئی اے لاہور کے ڈپٹی ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ میاں ثاقب حفیظ کے مطابق چائلڈ پورنوگرافی کے کیسز میں تفتیش ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے اختیارات میں شامل ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈپٹی ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ لاہور نے بتایا کہ اُن کا محکمہ اِس وقت پاکستان میں چائلڈ پورنوگرافی سے متعلق 10 مختلف کیسز پر تفتیش کر رہا ہے۔
ان کے بقول ان کیسز میں سے چار کیسز پاکستان میں موجود برطانوی ہائی کمیشن کی جانب سے بھیجے گئے ہیں۔
ڈپٹی ڈائریکٹر نے بتایا کہ ایف آئی اے پاکستان کی وزارتِ انسانی حقوق، انٹرپول برازیل اور تین کیسز اندرونِ ملک سے موصول ہونے والی شکایات پر کام کر رہی ہے۔
نارووال میں سے ملزم گرفتار
وفاقی تحقیقاتی ایجنسی نے حال ہی میں پاکستان کے ضلع نارووال میں بچوں کی غیر اخلاقی ویڈیوز بنانے میں ملوث ملزم کو گرفتار کیا ہے۔
ایف آئی اے گوجرانوالہ کے سائبر کرائم ونگ میں تعینات ڈپٹی ڈائریکٹر محمد اقبال کے مطابق برازیل کی حکومت نے ملزم سے متعلق معلومات کا تبادلہ پاکستان کی حکومت سے کیا تھا جس کے بعد کارروائی کی گئی تھی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے محمد اقبال نے بتایا کہ برازیل نے پاکستان کی حکومت کو اطلاع انٹرپول کے ذریعے دی تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
اُنہوں نے مزید بتایا کہ اطلاع ملنے پر اسلام آباد میں ایف آئی اے ہیڈ کوارٹرز متحرک ہوا جہاں سے معلومات ایف آئی اے کے چائلڈ پورنوگرافی سیل کو فراہم کی گئیں جس کے بعد ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کو اطلاع دی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ انٹرپول برازیل کی اطلاع پر ایف آئی اے نے نارووال کے علاقے شکر گڑھ سے ایک ملزم کو گرفتار کیا۔ اُس سے جو ویڈیوز ملی ہیں وہ غیر ملکی بچیوں کیں ہیں۔ یہ ویڈیوز وہ خود سے نہیں بناتا۔ اُس نے بھی کہیں سے یہ ویڈیوز ڈاؤن لوڈ کی تھیں۔ اِن میں سے کچھ ویڈیوز اور تصاویر ملزم نے کسی پورنوگرافی ویب سائٹ پر اپ لوڈ بھی کی ہیں اور کچھ کر رہا تھا۔
محمد اقبال کے مطابق ملزم کا نام ریاض ہے جس کی عمر 24 سال ہے۔ اس کے قبضے سے درجنوں ویڈیوز، اُس کا ذاتی لیپ ٹاپ، نیٹ ڈیوائسز اور دیگر چیزیں برآمد کر کے تفتیش کی جا رہی ہے۔
ایف آئی اے ملزم کو کیسے پکڑتی ہے؟
ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم میاں ثاقب حفیظ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ایسے کیسز میں ہر کیس کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔
ایک کیس کی تفتیش کے بارے میں بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پنجاب کے ضلع سرگودھا سے ایک شخص کو گرفتار کیا گیا تھا۔ اُس پر اعتراض تھا کہ وہ غیر اخلاقی مواد مختلف سائٹس پر اپ لوڈ کرتا ہے۔ اِس شخص کے بارے میں شکایات ناروے کے سفارت خانے نے پاکستان کو دی تھیں۔
لوگ ایسا کرتے کیوں ہیں؟
ایف آئی اے سمجھتا ہے کہ عام طور پر پیسے کمانے اور شہرت کے لیے بچوں کی نازیبا ویڈیوز بنائی اور پھر اپ لوڈ کی جاتی ہیں۔
ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے گوجرانولہ محمد اقبال کے مطابق شکر گڑھ سے پکڑا جانے والا ملزم پیسوں کے لیے یہ کام کرتا تھا۔
ان کے مطابق دورانِ تفتیش اس ملزم نے بتایا کہ اُسے ابھی تک کوئی پیسے ملے نہیں ہیں۔ اُس کی اَپ لوڈ کی ہوئی ویڈیوز کو پر صرف ویوز آئے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
محمد اقبال کے مطابق یہ سنگین جرم ہے۔ پاکستان میں ایسے کیسز پہلے بھی ہوتے رہے ہیں۔ ملزمان بچوں کی خود ویڈیوز بناتے ہیں اور پھر اَپ لوڈ کرتے ہیں۔
ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے لاہور میاں ثاقب کی رائے میں ملزمان زیادہ پیسے کمانے کی خاطر ایسے جرائم کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر چائلڈ پورنوگرافی کی ویڈیوز سے زیادہ پیسے ملتے ہیں۔
قانون اور سزائیں
ایف آئی اے کے مطابق بچوں کی غیر اخلاقی ویڈیوز اور تصاویر بنانے سے متعلق تمام کیسز سائبر کرائم ونگ کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔ ملک میں سائبر کرائم ونگ کے قوانین 2016 میں بنائے گئے تھے۔
ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے لاہور میاں ثاقب بتاتے ہیں کہ جب بھی ایف آئی اے کو کوئی شکایت ملتی ہے تو وہ کارروائی کرتی ہے۔ حکومت بھی شکایت کر سکتی ہے اور ایف آئی اے خود بھی شکایت کنندہ بن سکتا ہے۔
میاں ثاقب نے بتایا کہ پنجاب میں اِب تک کیسز ضلع قصور، ضلع جھنگ اور ضلع سرگودھا سے سامنے آئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے کیسز کی نشان دہی کے انٹرنیٹ استعمال کے ذریعے کرتا ہے۔ آئی پی ایڈریس اور باقی تفصیلات کے ذریعے کیسز کو حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اس حوالے محمد اقبال کا کہنا ہے کہ پاکستان کے قوانین کے مطابق ایسے کیسز سنگین جرائم میں آتے ہیں۔ سیکشن 42 کے تحت اِس جرم میں سات سال سے 14 سال تک قید اور 50 لاکھ روپے جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے۔
قوانین کے مطابق ایسا مواد رکھنا بھی جرم ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس یہ مینڈیٹ ہے کہ وہ کسی بھی مشتبہ شخص کا موبائل چیک کر سکتے ہیں اگر اُس کے اندر ایسا مواد موجود ہے۔ چاہے وہ اِس کو دیکھے، کسی کو بھیجے یا صرف اپنے پاس رکھے، تو بھی جرم ہے۔
چائلڈ پورنوگرافی سے متعلق پاکستان میں ابھی تک صرف دو ملزمان کو سزائیں ہوئی ہیں۔ جن میں سے ایک پنجاب کے ضلع سرگودھا کا ایک رہائشی ہے اس ملزم کو سات سال قید اور 12 لاکھ روپے جرمانہ ہوا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ایف آئی آر نمبر 34/17 کیس میں ملزم نے سزا کے خلاف دوبارہ لاہور ہائی کورٹ میں اپیل کی تھی وہ بھی عدالتِ عالیہ نے خارج کردی تھی۔
حال ہی میں پنجاب کے ضلع راولپنڈی کی عدالت نے ملزم سہیل ایاز کو بچوں سے زیادتی اور ویڈیو اسکینڈل کے جرم میں تین بار سزائے موت سنائی ہے۔
ایف آئی اے کے مطابق پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) ایسے کیسز کو اپ لوڈ کرنے یا ڈاؤن لوڈ کرنے سے متعلق روکنے کا اختیار رکھتی ہے جب کہ ایف آئی اے صرف ملزمان سے متعلق کیسز پر کارروائی کا اختیار رکھتی ہے۔
رواں سال اگست میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تحفظِ اطفال کو ایف آئی اے حکام نے بتایا تھا کہ پاکستان میں پورونو گرافی کے کیسز سب سے زیادہ رواں سال کے دوران رجسٹرڈ ہوئے ہیں اور اب تک 13 کیسز سامنے آ چکے ہیں۔
سینیٹ کی خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں ایف آئی اے حکام نے بچوں کی فحش ویڈیوز کے معاملے پر کمیٹی کو بریفنگ دی تھی۔
کمیٹی کو آگاہ کیا گیا تھا کہ پاکستان میں چائلڈ پورنو گرافی کو اپ لوڈ کرنے اور ڈاؤن لوڈ کرنے والوں کا ڈیٹا ملنا شروع ہو گیا ہے اور معلومات کے مطابق زیادہ تر پورنو گرافی کیسز میں انفرادی طور پر لوگ ملوث ہیں۔