’اسلام علیکم ناظرین، امید ہے آپ سب خیر خیریت سے ہوں گے‘، یہ جملہ آپ میں سے بہت سے لوگوں نے سات سالہ محمد شیراز کی زبان سے اپنی سوشل میڈیا فِیڈ میں کئی بار سنا ہوگا۔ لیکن چند دن پہلے انہوں نے یہ دلچسپ وی لاگز بنانے کا سلسلہ ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ پاکستان کے شمالی علاقے گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے شیراز نے ایک جذباتی ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ وہ اپنے والد کی ہدایت پر سوشل میڈیا کو خیرباد کہہ رہے ہیں۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر بارڈر کے قریب ان کے چھوٹے سے دور افتادہ گاؤں کی سادہ زندگی کی جھلک دیکھنے ان کے سوشل میڈیا اکاونٹس پر اس وقت تقریبا 55 لاکھ سبسکرائبرز ہیں ۔ ان کی روزمرہ کی سرگرمیاں نہ صرف پاکستان بلکہ پڑوسی ملک بھارت سے بھی لاکھوں لوگ دیکھتے ہیں۔
شیراز کے ویڈیوز میں لوگوں کی دلچسپی اس حد تک بڑھی کہ نہ صرف ٹی وی چینلز بلکہ وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے بھی انہیں وزیر اعظم ہاؤس میں مدعو کیا۔
شیراز کے والد کے مطابق سوشل میڈیا کو چھوڑنےکا فیصلہ شیراز کی ’تعلیم کے بارے میں خدشات‘ اور ان کی اچانک "شہرت کے منفی اثرات" کی وجہ سے کیا گیا تھا۔
اپنے اس اقدام کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ حد سے زیادہ توجہ اور شہرت شیراز کی عاجزی اور معصومیت کو متاثر کرنے لگی تھی۔
’وہ شیراز جو پہلے اپنے گاوں میں رہ کر وی لاگز بناتا تھا، سیدھی سادی زندگی گزار رہا تھا، مگر آخر وہ بچہ ہی ہے، اور اس شہرت کے بعد وہ شیراز کہیں گم ہو رہا تھا‘۔
SEE ALSO: دو سال سے چھوٹے بچے کا کم عمر ترین آرٹسٹ ہونےکا عالمی ریکارڈوہ کہتے ہیں کہ وہ اپنے بیٹے کے رویے میں آنے والی تبدیلی کی وجہ سے فکر مند تھے اور چاہتے تھے کہ شیراز اپنی بچپن کی معصومیت کوکھو نہ دیں۔ تاہم وہ اپنے اس فیصلے پر زیادہ دن قائم نہ رہ سکے اور شیراز کے وی لاگنگ کا سلسلہ پھر جاری ہو چکا ہے۔
چھوٹی عمر میں ملنے والی شہرت بچوں پر کیا اثر ڈالتی ہے؟
بچپن میں ملنے والی شہرت سے بچوں کی ذہنی نشونما اور صحت کیسے متاثر ہوتی ہے، وی او اے نے اسی سوال کا جواب جاننے کے لیے متعدد ماہرین سے بات کی ہے۔
اَرلی چائلڈ ہڈ ڈویلمپنٹ (ای سی ڈی) ایکسپرٹ فضیلت نوٹا کہتی ہیں کہ بچے قدرتی طور پر اپنے بچپن کے دوران اردگرد کے ماحول کو ایکسپلور کرنے، کھیلنے کودنے اور زندگی کے دیگر تجربات سے سیکھتے ہیں، ’یہ ان کا دنیا کو سمجھنے کا قدرتی طریقہ ہے اور اسی طرح ان کی گروتھ ہوتی ہے۔ تاہم جب وہ بچپن میں ہی عوامی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں تو اس سے ان کی ذہنی صحت اور استعداد کے ساتھ ساتھ سماجی اسکلز بھی متاثر ہوتی ہیں‘۔
SEE ALSO: 12 سالہ تنعشق ابراہم کو امریکی یونیورسٹیوں میں داخلے کی پیشکشوہ کہتی ہیں کہ ایسے بچوں پر ’مسلسل نوٹیفیکیشنز، نئے سبسکرائیبرز کے حصول کا دباؤ ہوتا ہے اور انہیں لگتا ہے کہ اب ان سے توقعات بہت بڑھ گئی ہیں، یہ تمام عوامل بچپن سے ہی ذہنی دباؤ کا باعث بنتے ہیں‘۔
اسی بارے میں بات کرتے ہوئے دماغی صحت کی ماہر فضا سہیل کہتی ہیں کہ ’مسلسل شہرت میں رہنے سے بچوں میں سٹریس پیدا ہوتا ہے جو انہیں اینگزائٹی میں مبتلا کر سکتا ہے، یعنی انہیں بار بار اچھی کارکردگی دکھانی ہے۔ اس کے علاوہ یہی شہرت انہیں میڈیا کے ہاتھوں ایکسپلائیٹیشن کا نشانہ بھی بناتی ہے۔ یہ بچے مستقبل میں انتہائی خطرناک ٹراما، ذہنی دباؤ اور ڈپریشن کا شکار ہو سکتے ہیں۔‘
SEE ALSO: 'مجھے اپنی زندگی واپس چاہیے'، برٹنی اسپیئرز کا عدالت سے والد کی سرپرستی ختم کرنے کا مطالبہفضیلت نوٹا کے مطابق شیراز کی تیزی کے ساتھ مقبولیت "خوفناک" تھی اور اس شہرت کا ان کی شخصیت پر منفی اثر ہو سکتا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ سوشل میڈیا پر بچپن میں شہرت پانے والے ان بچوں کو سائیبر بُلینگ اور آن لائن ہراسانی کا سامنا رہتا ہے، عین ممکن ہے کہ ایسے بچوں کو تعلیمی میدان میں بہتر کارکردگی دکھانے میں مشکل کا سامنا بھی کرنا پڑے‘۔
ایک ریسرچ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بچپن میں ہی سٹار بن کر ابھرتے اور خداداد صلاحیتوں کے مالک بیشتر لوگوں کا خیال ہے کہ ان کا بچپن کھیلنے کودنے کے لیے نہیں تھا بلکہ ان سے غیر حقیقی توقعات رکھی گئیں اور اصل تعلق کہیں کھو گئے۔
کینیڈین گلوکار جسٹن بیبر بھی، جو 13 سال کی عمر سے مشہور ہوئے، چائلڈہڈ فیم یعنی بچپن سے مل جانے والی شہرت کے منفی اثرات کے بارے میں بات کرتے آئے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ " ایسے بچوں پر پہت زیادہ دباؤ اور عمر سے بڑھ کر ذمہ داری ڈال دی جاتی ہے جب ان کا دماغ، جذبات، اور فیصلہ سازی کی صلاحیتیں ابھی مکمل طور پر پختہ نہیں ہوئی ہوتیں۔"
فضا سہیل کہتی ہیں کہ ایسے بچے ایک ’پرفارمر‘ بن جاتے ہیں، "یہ ایک طرح سے چائلڈ لیبر کے مساوی ہے جب اہلخانہ پیسہ کمانے کے لیے بچے کو استعمال کر رہے ہوں۔ میرے خیال میں والدین کو چاہئے کہ وہ حدود مقرر کریں کہ بچہ کیا کر سکتا ہے اور کیا نہیں کر سکتا۔ یہ حدود مقرر کرنا ضروری ہے ورنہ آپ کا بچہ انرنیٹ کی بے رحم دنیا میں گم ہو جائے گا۔ میں سمجھتی ہوں کہ شیراز کے والد نے اپنے بیٹے کی بھلائی کے لیے ایسی ہی حدود یا باونڈریز مقرر کر دی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ شیراز اپنے گاوں میں تو ہمیشہ ہی ایک ’سلیبریٹی‘ رہیں گے، ’انہیں باہر کی دنیا سے شاید وہ پہلے والی شہرت نہ ملے۔ اس کا انہیں دکھ ہو سکتا ہے تاہم میرے خیال میں اس سے ان کی ذہنی صحت پر کوئی مضر اثرات نہیں ہوں گے۔ اب ان کی فیملی، خاص طور پر والدین کے لیے اہم ہو گا کہ وہ شیراز کا یہ دکھ بڑھنے نہ دیں اور انہیں بچپن کی سادگی، اور اصل زندگی کا تجربہ کرنے کے لیے تیار رکھیں۔‘
فضیلت نوٹا نے اس معاملے میں والدین کے کردار کو اہم قرار دیا اور کہا کہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی آن لائن پریزینس پر نظر رکھیں، اور ان سے حقیقت پر مبنی توقعات رکھیں۔ اس کے علاوہ والدین کو بچوں کے انٹرنیٹ کے استعمال کے لیے وقت مقرر کرنا چاہیے اور بچوں کے ساتھ موبائل فونز اور انٹرنیٹ کی دنیا سے باہر وقت گزارنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔‘