جنوب مشرقی ایشیا اورچین کے وزرائے خارجہ نے اتوار کو جنوبی بحیرہ چین میں ضابطہ اخلاق طئے کرنےکے لیے مذاکراتی فریم ورک قائم کرنے پراتفاق رائے کیا ۔ اس اقدام کوانہوں نے پیش رفت کے طور پرسراہا لیکن بعض ناقدین اسے چین کی جانب سےاپنی بحری طاقت کو مستحکم کرنے کے لیےمزید وقت حاصل کرنے کے حربے کے طور پر دیکھتے ہیں۔
اس فریم ورک کے ذریعے جنوبی بحیرہ چین میں فریقین کے 2002 کے "ڈیکلیریشن آف کنڈکٹ" (DOC) کو آگے بڑھانے کی کوشش کی جائے گی، جسے زیادہ تر دعویدار ریاستوں نے نظر انداز کیا ہے، خاص طور پرچین نے، جس نے متنازعہ پانیوں میں اپنے سات جزیرے بنا لیے ہیں، ان میں سےتین پر سطح سے فضا میں مار کرنے والے میزائل اور ریڈارکو ستعمال کرنے کے لیےرن وے بھی تعمیرکیے گئے ہیں۔
چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے کہا کہ مذاکرات کے لیے ایک ٹھوس بنیاد پیدا ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بشرطیکہ جنوبی بحیرہ چین کی صورتحال عمومی طور پر مستحکم رہے اوربیرونی طاقتوں کی طرف سے کوئی بڑی مداخلت نہ کی جائے۔
چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ" واقعی ٹھوس پیش رفت" ہوئی ہے لہذا بحیرہ جنوبی چین میں اس پیش رفت کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے"۔
دفاعی اہمیت کی حامل آبی گزرگاہ کے لیے ایک طویل عرصے سے قانونی طورپرلازم اورقابل نفاذ کوڈ پرچین سے دستخط کرانا جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی ایسوسی ایشن (آسیان) کے اراکین کا ایک مقصد رہا ہے، جن میں سے کچھ ممالک برسوں سے اس بات پرشاکی رہے ہیں کہ چین ان کے حق خود مختاری اورماہی گیروں اورتوانائی کی تلاش کی کوششوں کو روکتا رہا ہے۔
بیجنگ کا اصرار ہے کہ اس کی سرگرمیاں ان سمندری علاقوں تک محدود ہیں جواس کی ملکیت ہیں اوریہ صرف دفاعی مقاصد کے لیے ہیں۔ تاہم، ملائیشیا، تائیوان، برونائی، ویتنام اورفلپائن بھی جنوبی بحیرہ چین کے پانیوں پراپنی ملکیت کا دعویٰ کرتے آئے ہیں۔
کچھ ناقدین اورسفارت کاروں کا خیال ہے کہ 15 سال کی تاخیر کے بعد کوڈ میں چین کی اچانک دلچسپی بحیرہ جنوبی چین میں اپنے مخصوص مقاصد کے حصول کے لیے مہلت حاصل کرنے کے لیے مذاکراتی عمل کو طول دینا ہے، اس سمندری گر گاہ سے سالانہ 3 ارب ڈالر سے زیادہ کی بحری تجارت ہوتی ہے۔
مخالفین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسے ایک ایسے وقت میں آگے بڑھایا جا رہا ہے جب امریکہ، جسے طویل عرصے سے چین کی بحری جارحیت کے خلاف ایک اہم رکاوٹ کے طور پر دیکھا جاتا ہے، دیگر مسائل میں الجھا ہوا ہے اورایشیا میں اپنی سیکیورٹی حکمت عملی کے بارے میں کوئی واضح پروگرام پیش نہیں کر رہا ہے، اس طرح آسیان کی سودے بازی کی پوزیشن بھی کمزور ہو رہی ہے۔
اس فریم ورک کو عام نہیں کیا گیا ہے لیکن خبر رساں ادارے رائٹرزکے ذریعہ دیکھا گیا دوصفحات پر مشتمل بلیوپرنٹ وسیع اورعمومی ہے اوراس میں اختلاف کی وسیع گنجائش موجود ہے۔
یہ سمندر کے قانون پراقوام متحدہ کے کنونشن (UNCLOS) کے "مقاصد اور اصولوں" سے وابستگی پر زور دیتا ہے لیکن اس پرعمل کرنے کی وضاحت نہیں کرتا ہے۔
ایک علیحدہ آسیان دستاویز، جس پر مئی کی تاریخ درج ہے اوررائٹرز نے دیکھی ہے، ظاہر کرتی ہے کہ ویتنام نے فریم ورک میں مضبوط، زیادہ مخصوص متن کے لیے زور دیا، جس میں تنازعات کے حل کے طریقہ کار"خودمختاری، اس کے حقوق اوردائرہ اختیار" کا احترام اورمچھلیوں اورقدرتی وسائل کے حصول شامل ہے۔
ویتنام اور فلپائن سمیت کئی آسیان ممالک نے کہا ہے کہ وہ اب بھی اس ضابطے کو قانونی طور پر پابند بنانے کے حامی ہیں، جس کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کے اس سے اتفاق کرنے کا امکان نہیں ہے۔
وانگ نے کہا کہ وہ یہ اندازہ لگانے کی کوشش نہیں کریں گے کہ ضابطہ کیا ہوگا، لیکن کہا کہ جس پربھی دستخط کیے جائیں اس پر عمل کرنا چاہیے۔
میزبان فلپائن کی وزارت خارجہ کے ترجمان روبسپیئر بولیوار نے کہا کہ فریم ورک کو اپنانا ایک "مستقل اور موثر" کوڈ بنانے کے عزم کی علامت ہے۔
(خبر کا مواد رائیٹرز سے لیا گیا ہے)