وائٹ ہاوس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے بتایا ہے کہ امریکہ کے صدر جو بائیڈن اور چین کے صدر شی جن پنگ آئندہ چند ہفتوں میں مذاکرات کریں گے لیکن جی سیون کے سربراہ اجلاس کے فورا بعد نہیں۔
اسی اثنا میں سفارتی ذرائع نے بتایا ہے کہ امریکہ اور چین کے اعلی سفارتکار آئندہ ماہ جی ۔ 20 کے وزارتی اجلاس کے موقع پر بالی، انڈونیشیا میں سائیڈ لائن ملاقات کریں گے۔
سلیوان نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ چین کی طرف سے آنے والے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے G-7 اور نیٹو کے اراکین کے درمیان مشاورت کی "فوری ضرورت" ہے، جب کہ ان چیلنجوں میں سے کچھ سے نمٹنے کے لیے "دنیا کی سرکردہ معیشت والی جمہوریتوں کے درمیان ہم آہنگی کی کوشش کی جا رہی ہے۔ خاص طور پر، چین کے مارکیٹ سے ہٹ کر معاشی مشق، قرضوں سے متعلق اس کی سوچ، اور انسانی حقوق سے متعلق اس کی سوچ اور حکمت عملی کے بارے میں۔
نیٹو ممالک کے رہنما اس ہفتے کے آخر میں میڈرڈ میں ملاقات کریں گے۔ امریکی حکام اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عوامی جمہوریہ چین سے متعلق حکمت عملی پر بات چیت ایجنڈے میں سب سے اہم ہے، کیونکہ نیٹو سے متوقع ہے کہ وہ اس سال اپنے نئے ’اسٹریٹجک کانسپٹ‘ یعنی سٹریٹجک تصور کی تصدیق کرے گا۔ 1949 کے شمالی بحر اوقیانوس کے معاہدے کے بعد اس تنظیم کے آخری اسٹریٹجک تصور پر 2010 میں اتفاق کیا گیا تھا۔
سلیوان نے پیر کو کہا کہ نیٹو کا اسٹریٹجک تصور "اس انداز سے بات کرے گا جو چین کو درپیش چیلنج کے بارے میں بے مثال ہوں گے،" انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ اور چین کے درمیان مقابلے کا مطلب "تصادم نہیں ہے،"
چین کے اعلیٰ سفارت کار یانگ جیچی نے 13 جون کو لکسمبرگ میں سلیوان کے ساتھ اپنی تازہ ترین ملاقات کے دوران کہا تھا کہ چین سختی سے چین-امریکہ تعلقات کی اس تعریف کی مخالفت کرتا ہے جس میں دو طرفہ تعلقات کو تقابل کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یانگ نے اس بات کا اعادہ کیا کہ چین امریکہ کے ساتھ باہمی احترام، پرامن بقائے باہمی اور دونوں کے لیے فائدہ مند تعاون کا خواہشمند ہے۔
امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن اور چینی وزیر خارجہ وانگ یی کے درمیان اگلے ماہ G-20 وزارتی اجلاس کے درمیان بالمشافہ ملاقات ایسے وقت میں ہونے جا رہی ہے جب روس یوکرین میں اپنی جارحیت کو بڑھا رہا ہے۔
روس کے یوکرین پر حملہ کرنے کے بعد اعلیٰ امریکی حکام نے چین کی مبینہ "غیر جانبداری" پر سوال اٹھایا ہے۔
چینی کسٹمز کے اعداد و شمار کے مطابق چین نے مئی میں روس سے تقریباً 8.42 ملین ٹن خام تیل درآمد کیا۔ یہ مقدار ایک سال پہلے کے مقابلے میں 55 فیصد زیادہ ہے۔ ایسے میں جب امریکہ اور مغربی ممالک روس کی طرف سے توانائی کی ایکسپورٹ پر پابندی جاری رکھے ہوئے ہیں، روس سعودی عرب کو پیچھے چھوڑ کر چین کو سب سے زیادہ تیل فراہم کرنے والا ملک بن گیا ہے۔
روس میں امریکہ کے سفیر جان سلیوان نے گزشتہ ہفتے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس بارے میں مایوسی ہے کہ بیجنگ کی طرف سے جو بیان بازی ہوتی ہے۔ تاہم انہوں نے کہا وہ نہیں جانتے کہ آیا چین نے روس کو ایسی امداد فراہم کی ہو روس کی طرف سے یوکرین کو کچلنے میں مددگار رہی ہو۔