چین اور وسطی ایشیا کا بڑا ریلوے منصوبہ، امکانات اور چلینجز کیا ہیں؟

27 دسمبر 2024 کو کرغزستان کے صدارتی پریس آفس کی طرف سے جاری کی گئی اس تصویر میں، حکام جنوبی کرغزستان میں جلال آباد کے علاقے تاش-کیچو میں چین-کرغزستان-ازبکستان ریلوے منصوبے کے آغاز کی تقریب میں شریک ہیں۔

  • 400 کلومیٹر سے زائد پر محیط سی کے یو کے مخفف کے نام کا چین-کرغزستان-ازبکستان ریلوے منصوبہ چین کے "بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو" یا بی آر آئی کے تحت ریلوے کے متعدد منصوبوں میں سے ایک ہے۔
  • چین کا بی آر آئی پروگرام، دنیا کے 150 سے زائد ممالک اور 32 بین الاقوامی تنظیموں سمیت ایک عالمی بنیادی ڈھانچے کا منصوبہ ہے جو مشرق بعید کے کئی ملکوں کو آپس میں ملاتا ہے۔
  • تھنک ٹینک "اٹلانٹک کونسل" کے "گلوبل چائنا ہب" میں چین-وسطی ایشیا تعلقات کے ماہر نیوا یو کہتے ہیں "موجودہ بی آر آئی پراجیکٹس ٹھیک سے کام نہیں کر رہے ہیں اور کچھ کو کافی تاخیر کا سامنا ہے۔"
  • ایک ماہر عمروف کا کہنا ہے کہ تکنیکی مسائل کے علاوہ یہ منصوبہ کرغزستان کو چین کا زیادہ مقروض بھی بنا سکتا ہے۔
  • تجارت کے لیے ایک ٹرانزٹ ملک کی حیثیت سے روس پر وسطی ایشیا کے انحصار کی وجہ سے ماسکو کو زہادہ فائدہ ہو گا۔

چین اور وسطی ایشیا کو ملانے والے ایک بڑے ریلوے منصوبے پر اس سال کام شروع ہو گا جس کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بیجنگ کو خطے میں تجارتی روابط بڑھانے سمیت چینی اثر و رسوخ قائم کرنے میں بھی مدد گار ہو گا مگر اس منصوبے کو کچھ چلینجز کا بھی سامنا ہے۔

400 کلومیٹر سے زیادہ طویل سی کے یو کے مخفف کے نام کا چین-کرغزستان-ازبکستان ریلوے منصوبہ چین کے "بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو" یا بی آر آئی کے تحت ریلوے کے متعدد منصوبوں میں سے ایک ہے۔

واضح رہے کہ چین کا بی آر آئی پروگرام دنیا کے 150 سے زائد ممالک اور 32 بین الاقوامی تنظیموں سمیت ایک عالمی بنیادی ڈھانچے کا منصوبہ ہے جو مشرق بعید کے کئی ملکوں کو آپس میں ملاتا ہے۔

سی کے یو ریلوے لائن چین کے شمال مغربی سنکیانگ خود مختار علاقے کے کاشغر شہر سے شروع ہو کر درہ ترگورت کے ذریعہ کرغزستان میں داخل ہو گی۔ اس کے بعد یہ لائن مغرب میں کرغزستان کے سرحدی شہر جلال آباد سے گزرتے ہوئے ازبکستان کے مشرقی شہر اندیجان پر ختم ہو گی۔

SEE ALSO: چین کا وسطی ایشیا میں ریلوے کی تعمیر اور باہمی تجارت بڑھانے کا اعلان

تاہم، سی کے یو ریلوے منصوبے کی تعمیر پر کام دو دہائیوں کے مذاکرات کے بعد جولائی میں شروع ہو رہا ہے۔ منصوبے پر اس سال کام شروع کرنے کے پیچھے کئی عوامل کار فرما ہیں۔

بعض علاقائی مبصرین نے 'وائس آف امریکہ' کو بتایا کہ ریلوے کی تعمیر 20 سال سے زیادہ عرصے سے مالی اور تکنیکی مسائل اور روس اور قازقستان کی جانب سے بیجنگ کو اس منصوبے فنڈنگ سے روکنے کی کوششوں کے باعث تعطل کا شکار تھی۔

تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 2016 کے بعد ازبکستان اور کرغزستان میں حکومت کی تبدیلی اور روس کی یوکرین سے جاری جنگ نے اس منصوبے پر عمل درآمد کی راہ ہموار کی۔

اس سلسلے میں کارنیگی روس یوریشیا سینٹر سے وابستہ وسطی ایشیا کے ماہر تیمور عمروف کہتے ہیں کہ ماضی میں ازبکستان اس منصوبے سے منسلک کچھ مسائل کے بارے میں فکر مند تھا۔

لیکن، ان کے مطابق، اب صدر شفقت مرزیوف کی حکومت اس منصوبے کو شروع کر رہی ہے کیونکہ ازبکستان دہائیوں سے اس کی منصوبہ بندی کرتا رہا ہے۔

SEE ALSO: چینی صدر کا دورۂ سعودی عرب: ’محمد بن سلمان رسک لینے کے لیے تیار ہیں‘

دوسری طرف، تیمور عمروف کہتے ہیں، کرغزستان کی پچھلی حکومت کو اس بارے میں شکوک و شبہات تھے کہ سیاسی اشرافیہ کے ایک حصے نے کرغزستان کے چین اور دوسرے وسطی ایشیائی ممالک کے درمیان ہونے کی جغرافیائی حیثیت سے فائدہ اٹھایا، جس کی چین کے ساتھ سرحد نہیں ملتی۔

فون پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ لوگ چین سے آنے والی کچھ مصنوعات وسطی ایشیائی ممالک کو بیچنا چاہتے تھے۔

عمروف نے مزید بتایا کہ کرغزستان کے موجودہ رہنما صدر جاپاروف اپنے عہدہ صدارت کے ابتدائی دنوں سے ہی اس منصوبے کے بارے میں بات کرتے رہے ہیں اور یہ ان کے دورِ صدارت کے اہم ترین سیاسی منصوبوں میں سے ایک ہے۔

ریلوے پراجیکٹ میں شامل دونوں ملکوں ازبکستان اور کرغزستان کی حکومتوں کے بدلتے ہوئے رویوں کے علاوہ ماہرین کا کہنا ہے کہ خطے میں جاری یوکرین کی جنگ بھی اسے آگے بڑھانے کا ایک محرک بن رہی ہے۔

ماہرین کے مطابق یوکرین کی جنگ نے چین اور وسطی ایشیائی ممالک کو یورپ کے لیے نئے ٹرانزٹ روٹس تلاش کرنے پر مائل کیا ہے۔

امریکی ریاست ٹیکساس کی ایگری کلچر اور میکینیکل یونیورسٹی میں چین اور وسطی ایشیا کے تعلقات کے ماہر ایڈورڈ لیمن کا کہنا ہے کہ سمندر سے دور واقع وسطی ایشیا کی تجارت بنیادی طور پر روس سے ہوتی ہے۔

SEE ALSO: چین کے صدر کا وسطی ایشیائی ممالک کو ’ رنگین انقلاب‘ کے خلاف انتباہ

مزید یہ کہ چین کی "بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو" کے تحت یورپ کے ساتھ زیادہ تر تجارت بھی روس کے راستے سے ہی ہوتی ہے۔

ایڈورڈ لیمن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ تینوں ممالک اس راستے کا متبادل تلاش کر رہے ہیں۔

متبادل کے طور پر ان کا آپس میں زیادہ تجارت اور ایران اور بحیرہ کیسپین کے درمیان مڈل کوریڈور یا درمیانی راہداری کے ذریعے دیگر راستوں کا سلسلہ شامل ہے اور ریلوے ان راستوں کا ایک حصہ ہے۔

خیال رہے کہ "مڈل کوریڈور" سے مراد "ٹرانس کیسپین انٹرنیشنل ٹرانسپورٹ روٹ" ہے جو ترکی سے شروع ہو کر کاکس کے علاقے، بحیرہ کیسپین، وسطی ایشیا اور مغربی چین سے گزرتا ہے۔

اس طرح سے یہ مغربی چین اور یورپ کے درمیان مختصر ترین راستہ ہے۔

مذکورہ منصوبے کے تحت چین ریلوے کے چینی حصے کی تعمیر کرے گا جب کہ ازبکستان اس منصوبے کے اپنے علاقے سے گزرنے والے حصے کو بہتر بنانے پر توجہ دے گا۔

SEE ALSO: پاکستان وسط ایشیائی ملکوں سے قربتیں کیوں بڑھا رہا ہے؟

تینوں ملکوں کے مشترکہ منصوبہ کے تحت کرغزستان میں ریلوے لائن کی مالی اعانت اور تعمیر کی جائے گی۔

چین، کرغزستان اور ازبکستان کے رہنماؤں نے دسمبر میں منصوبے کے امکانات کی تعریف کی۔

خطے کے امور کے ماہر عمروف کے خیال میں ریلوے پراجیکٹ تجارتی اور اقتصادی نقطہ نظر سے بیجنگ کی وسطی ایشیا میں موجودگی کو بڑھا سکتا ہے "جو کہ خطے کے ممالک کے ساتھ تعلقات کو گہرا کرنے کی بیجنگ کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔"

بعض چینی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سی کے یو ریلوے منصوبہ ایشیا اور یورپ کو جوڑنے میں بھی اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

اس موضوع پر اپنی رائے دیتے ہوئے "چائنیز اکیڈمی آف سوشل سائنسز" کے "انسٹی ٹیوٹ آف رشین، ایسٹرن یورپی اینڈ سینٹرل ایشین اسٹڈیز" کے محقق ژانگ ہونگ نے چین کے سرکاری ٹیبلوئڈ گلوبل ٹائمز کو بتایا کہ یہ منصوبہ ایشیاء اور یورپ کے درمیان تعاون کو بڑھانے کے ایک اہم موقع کی نمائندگی کرتا ہے۔

SEE ALSO: ابھرتی معیشتوں کےگروپ برکس کی ترکیہ کو پارٹنر ملک کا درجہ دینے کی پیشکش

ان کے بقول یہ ریلوے لائنز ممکنہ طور پر چین سے یورپ اور مشرق وسطیٰ میں چین یورپ مال بردار ٹرین کے ذریعے سامان کی نقل و حمل کے لیے مختصر ترین راستہ فراہم کرے گی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ وسطی ایشیا میں اپنی موجودگی بڑھانے کے علاوہ چین اپنے بڑے بی آر آئی پروگرام کو فروغ دینے اور آگے بڑھانے کے لیے ریلوے کے منصوبے کو استعمال کرنے کی کوشش کرے گا۔

خیال رہے کہ حالیہ سالوں میں چین کو بی آر آئی منصوبے کے پروگراموں میں مزید ممالک کو شامل کرنے کے حوالے سے مشکلات کا سامنا رہا ہے۔

اس ضمن میں تھنک ٹینک "اٹلانٹک کونسل" کے "گلوبل چائنا ہب" میں چین-وسطی ایشیا تعلقات کے ماہر نیوا یو کہتے ہیں "موجودہ بی آر آئی پراجیکٹس ٹھیک سے کام نہیں کر رہے اور کچھ کو کافی تاخیر کا سامنا ہے۔"

ان حالات کے پیش نظر، وہ کہتے ہیں، ریلوے کی سی کے یو پروجیکٹ پر معاہدہ لوگوں کو یاد دلاتا ہے کہ بی آر آئی کیا ہے۔

وی او اے سے فون پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سی کے یو کا آغاز وسطی ایشیا میں اقتصادی فوائد فراہم کرنے والے ملک ہونے کے تاثر کو برقرار رکھنے میں بھی چین کی مدد کرتا ہے۔

ان فوائد کے باوجود، یاؤ اور عمروف دونوں کا کہنا ہے کہ سی کے یو کی تعمیر میں ابھی بھی کچھ مسائل درپیش ہیں۔

SEE ALSO: کیاپوٹن برکس سر براہی اجلاس سے عالمی امور پر مغربی اثر و رسوخ کا مقابلہ کر پائیں گے؟

یاؤ کے مطابق پہاڑوں کے پار ایک ریلوے تعمیر کرنے کے لیے سرنگوں کی کھدائی اور جدید ترین ٹیکنالوجیز کی ضرورت ہے جو صرف مقامی طور پر چین کے پاس ہی موجود ہے۔"

"ہم کرغزستان میں سے ایک راستے کے بارے میں بات کر رہے ہیں، جس میں (بجلی) یا آبی گزرگاہیں یا ان میں سے کوئی چیز بھی نہیں ہے۔"

ان کے مطابق ملک میں مختلف بنیادی چیزیں ابھی تک بڑے کام کے معیار سے بہت دور ہیں۔

تکنیکی مسائل کے علاوہ، عمروف نے کہا کہ یہ منصوبہ کرغزستان کو چین کا زیادہ مقروض بھی بنا سکتا ہے۔

انہوں نے وی او اے کو بتایا کہ کرغزستان کا چین پر قرض اس کی مجموعی گھریلو پیداوار کا تقریباً ایک تہائی ہے "اور اس بڑے منصوبے پر چینی سرمایہ کاری پر زیادہ انحصار یقینی طور پر اس کی معیشت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہو گا۔"

لیمن نے کہا کہ جہاں چین اس منصوبے کے ذریعے وسطی ایشیا میں اپنا تاثر بہتر کر سکتا ہے، وہیں اس منصوبے کے مکمل ہونے کے بعد روس کے لیے یہ اس خطے سے دور ہونے ہونے کا احساس پیدا کر سکتا ہے۔

انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ تجارت کے لیے ایک ٹرانزٹ ملک کے طور پر روس پر وسطی ایشیا کا انحصار، ماسکو کے فائدہ اٹھانے میں بنیادی حیثیت رکھا ہے۔ لیکن روس کی یوکرین سے جنگ اور خطے میں اتحادیوں کی اشد ضرورت ہونے کے تناظر میں روس "اس بارے میں کچھ زیاہ نہیں کر سکتا۔"