بحیرۂ جنوبی چین کے ایک جزیرے ہینن کے حکا م نے اعلان کیا ہے کہ وہ پیٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں پر مکمل پابندی عائد کر رہے ہیں جس کے بعد یہ گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج روکنے کے لیے چین کا پہلا علاقہ بن جائے گا۔
پیٹرول اور ڈیزل یعنی معدنی ایندھن سے چلنے والی گاڑیوں پر پابندی کا مکمل اطلاق 2030 سے ہو گا۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کاربن گیسوں کے اخراج کی سب سے بڑی وجہ معدنی ایندھن کابڑھتا ہوا استعمال ہے۔ معدنی ایندھن میں کوئلہ بھی شامل ہے۔ کوئلے کا سب سے زیادہ استعمال صنعتی شعبے میں کیا جاتا ہے۔ چین اور بھارت میں زیادہ تر بجلی گھروں اور کارخانوں میں کوئلہ استعمال ہوتا ہے۔
دنیا بھر میں سب سے زیادہ کاربن گیسیں خارج کرنے والے پہلے تین ملک بالترتیب امریکہ ، چین اور بھارت ہیں۔
کاربن اور گرین ہاؤس گیسیں زمین کے اوپر کرۂ ہوائی میں ایک غلاف کی طرح پھیل جاتی ہیں۔ کاربن گیسوں کا یہ غلاف زمین سے خارج ہونے والی حرارت کو واپس خلا میں جانے سے روکتا ہے جس سے کرۂ ارض کا درجہ حرارت بڑھنا شروع ہو جاتا ہے ، جس سے زمین پر موسموں کا قدرتی توازن درہم برہم ہونے لگتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ زمین پر حرارت کہاں سے آتی ہے؟ اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ سورج دن بھر زمین کو روشنی اور حرارت فراہم کرتا ہے جس سے زندگی رواں دواں رہتی ہے۔ لیکن جب رات ہوتی ہے تو نہ صرف زمین پر سورج کی روشنی پہنچنا بند ہو جاتی ہے بلکہ دن بھر زمین جتنی حرارت جذب کرتی ہے وہ اسے رات کو خارج کرنا شروع کر دیتی ہے جو خلا میں واپس چلی جاتی ہے۔
SEE ALSO: آلودگی سے سالانہ ہلاکتوں کی تعداد 90 لاکھ ہوگئی، تحقیقی رپورٹیہ قدرتی نظام اربوں برسوں سے جاری ہے۔ یہ نظام پہاڑوں کی چوٹیوں پر برف کی موجودگی، برف کے پگھلنے، دریاؤں کے بہاؤ، بارشوں اور سمندروں میں پانی کی سطح میں توازن برقرار رکھتا ہے۔مگر گزشتہ دو صدیوں سے اس قدرتی نظام میں خلل پڑ رہا ہے اور زمین گرم ہو رہی ہے۔
سائنس دان کہتے ہیں کہ زمین کے قدرتی ماحول میں خلل کا ذمہ دار انسان خود ہے ۔ اس دخل اندازی کی ابتدا اس وقت ہوئی جب انسان نے صنعتی ترقی کے دور میں اپنا قدم رکھا اور کارخانے چلانے کے لیے معدنی ایندھن جلانا شروع کیا۔ تب سے زمین کا درجہ حرارت بتدریج بڑھ رہا ہے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ آب و ہوا کی تبدیلی کے عمل کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ کرۂ ارض کے درجہ حرارت کو اس سطح پر لوٹایا جائے جو صنعتی دور کے آٖغاز سے قبل تھا جس کے لیے کاربن گیسوں کا اخراج روکنا ضروری ہے۔
دنیا بھر میں کروڑوں گاڑیاں حرکت میں ہیں۔ ان میں پیٹرول اور ڈیزل جلنے سے کاربن گیسیں فضا میں خارج ہوتی ہیں۔ اسی طر ح ایسی فیکٹریاں اور کارخانے بھی کاربن گیسیں پیدا کرتے ہیں جہاں معدنی ایندھن استعمال ہوتا ہے۔
ماہرین کاکہنا ہے کہ کاربن گیسوں کے اخراج میں گاڑیوں کا ایک بڑا کردار ہے۔اسی لیے ترقی یافتہ ممالک ہائی برڈ اور بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں اور صارفین کو اس جانب راغب کرنے کے لیے مالی ترغیبات دے رہے ہیں۔
SEE ALSO: پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کی آمد، عام آدمی کی دسترس سے دورچینی صوبے ہینن کی جانب سے معدنی ایندھن سے چلنے والی گاڑیوں پر پابندی کااعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب دنیا کی سب سے زیادہ آبادی کا یہ ملک گرم ترین اور خشک ترین موسم گرما کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل سے نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہاں موسم کی شدت سے زرعی پیداوار میں کمی آ رہی ہے ، دریاؤں اور آبی ذخائر میں پانی کی سطح گھٹ رہی ہے جس سے پن بجلی گھر اپنی گنجائش کے مطابق کام نہیں کر پا رہے اور آب پاشی کے لیے پانی کی قلت پیدا ہو رہی ہے۔
ہینن کی صوبائی انتظامیہ کے اعلان میں کہا گیا ہے کہ 2030 میں صوبے بھر میں معدنی ایندھن سے چلنے والی گاڑیوں کی فروخت پر مکمل پابندی عائد ہو جائے گی۔
چند سال قبل چین کی مرکزی حکومت نے کہا تھا کہ اس کی انتظامیہ پیٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں کی تیاری اور فروخت کو بتدریج روکنے کے ایک بڑے منصوبے پر کام کر رہی ہے۔تاہم اس منصوبے کی تفصیلات جاری نہیں کی گئیں تھیں۔
حکمران کمیونسٹ پارٹی الیکٹرک کاروں کو فروغ دے رہی ہے تاکہ چین کے شہروں کو فضائی آلودگی اور سموگ سے پاک کرنے کے ساتھ ساتھ اس صنعت میں برتری حاصل کرنے میں مدد مل سکے۔ گزشتہ سال الیکٹرک گاڑیوں کی فروخت میں چین کا حصہ نصف سے زیادہ تھا۔
اس آرٹیکل کے لیے کچھ مواد خبر رساں ادارے' ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لیا گیا ہے۔