بلوچستان میں جلوس اور دھرنوں پر پابندی، 'کسی کو سڑکوں پر آنے کا شوق نہیں ہوتا'

فائل فوٹو

پاکستان کے صوبے بلوچستان میں جلسے اور ریلیوں اور قومی شاہراہوں پر دھرنا دینے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے جس پر شہری حقوق کی تنظیمیں اور سول سوسائٹی سراپا احتجاج ہیں۔

ہفتے کی شب گورنر بلوچستان نے کریمنل لا بلوچستان ترمیمی آرڈیننس جاری کیا تھا جس کے تحت ریلیوں، جلسوں اور دھرنوں پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔

گورنر بلوچستان کی جانب سے جاری کیے گئے آرڈیننس کو عوامی حلقوں، سول سوسائٹی، وکلا اور سیاست دانوں نے کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے پاکستان کے آئین سے متصادم قرار دیا ہے۔

گورنر بلوچستان کی جانب سے جاری آرڈنینس نافذ العمل ہو چکا ہے اور اس کے تحت کوئٹہ میں دھرنے پر بیٹھے ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے نمائندوں کی پہلی گرفتاری بھی عمل میں لائی جا چکی ہے۔

آرڈیننس کی مختلف شقوں کے مطابق خلاف ورزی کرنے والوں کو تین سے چھ ماہ قید کی سزا کے ساتھ 10 ہزار روپے جرمانے کی سزا دی جاسکے گی۔

کریمنل لا بلوچستان ترمیمی آرڈیننس کے تحت پولیس خلاف ورزی کرنے والوں کو بغیر کسی وارنٹ کے گرفتار بھی کر سکتی ہے جب کہ سیشن کورٹ اور فرسٹ کلاس مجسٹریٹ جرم ثابت ہونے پر قید اور جرمانے کی سزا دینے کے مجاز ہیں۔

یاد رہے کہ یہ آرڈیننس ایسے موقع پر جاری کیا گیا ہے کہ جب بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں 'گوادر کو حق دو' تحریک کے تحت لوگ سراپا احتجاج ہیں۔

اس کے علاوہ بلوچستان یونیورسٹی سے مبینہ طور پر لاپتا ہونے والے دو طالب علموں کی عدم بازیابی کے خلاف بلوچستان کی طلبہ تنظیمیں بھی احتجاج کر رہی ہیں۔

کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے افراد بھی مختلف مواقع پر دھرنے دیتے رہے ہیں۔ (فائل فوٹو)

دوسری جانب بلوچستان میں ڈاکڑوں کی تنظیم ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن بھی کوئٹہ کے ریڈ زون میں دھرنا دیے ہوئے تھے اور بعض ڈاکٹرز کی گرفتاری اتوار کی شب اسی قانون کے تحت عمل میں لائی گئی۔

واضح رہے کہ کوئٹہ پریس کلب کے سامنے آئے روز مختلف سیاسی جماعتیں اور سماجی تنظیمیں اپنے حقوق کے لیے احتجاج کرتی ہیں تاہم حکومت کا مؤقف ہے کہ آئے روز بلوچستان کے دارالحکومت میں ریلیوں اور احتجاجی مظاہروں کی وجہ سے شہر میں شدید ٹریفک جام کا مسئلہ درپیش ہے اور اس صورتِ حال سے عام عوام بھی پریشان ہے۔

دھرنوں اور ریلیوں سے ٹریفک جام جیسے مسائل اپنی جگہ مگر گورنر بلوچستان کی جانب سے احتجاج پر پابندیوں کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں۔

ماہر قانون جمیل رمضان ایڈوکیٹ کہتے ہیں کہ معاشروں میں احتجاج اس وقت ہوتے ہیں جب ریاست اپنی ذمے داریاں پوری کرنے میں ناکام ہو جائے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ریاست کی اولین ذمہ داری آئین کی پاسداری اور بنیادی حقوق کا تحفظ ہے۔ بنیادی حقوق میں تمام شہری برابر ہیں، ان کی جان اور مال کا تحفظ ریاست کی ذمے داری ہے۔

جمیل رمضان ایڈوکیٹ سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی بات کر رہا ہے اور اپنا احتجاج ریکارڈ کروا رہا ہے تو ریاست کی ذمے داری ہے کہ اس کی بات سنے۔ اگر ریاست اسے نہیں سنتی اور طاقت کے ساتھ اسے روکتی ہے تو یہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے۔

حکومت کا مؤقف ہے کہ آئے روز کے احتجاج اور دھرنوں سے کوئٹہ میں ٹریفک کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔

حالیہ ترمیمی آرڈنینس پر سول سوسائٹی کے نمائندوں نے بھی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ماضی میں بھی حکومت کی جانب سے احتجاج کو روکنے کے لیے اس طرح کے انتظامی احکامات جاری کیے گئے جو غیر مؤثر ثابت ہوئے۔

'شہریوں کو سڑکوں پر آنے کا شوق نہیں'

کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن بہرام بلوچ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ریاست آئینِ پاکستان کے تحت پابند ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو اظہار رائے کی مکمل آزادی دے گی۔

اُن کے بقول مگر بلوچستان میں صورتِ حال اس سے بالکل مختلف ہے۔ شہریوں کو کوئی شوق نہیں کہ وہ سڑکوں پر نکل آئیں اور احتجاج کریں، عوام اس وقت سڑکوں پر نکل کر آواز بلند کرتی ہے جب ریاست ان کے حقوق کی پاسداری کرنے میں ناکام ہو۔

بہرام بلوچ کہتے ہیں کہ پاکستان میں رات کے اندھیرے میں کبھی پیٹرول کی قیمتیں بڑھائی جا رہی ہیں تو کبھی عوام کے حقوق کو غصب کرنے کے لیے آرڈنینس جاری ہو رہے ہیں۔

اُن کے بقول گورنر بلوچستان کی جانب سے رات کے اندھیرے میں عوام مخالف آرڈینیس کا اجرا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

انہوں نے کہ بلوچستان کی عوام، سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتیں حکومت کے اس اقدام کی مخالفت کرتے ہوئے مطالبہ کرتی ہیں کہ فی الفور اس آرڈیننس کو واپس لیا جائے۔

'احتجاج کرنے کا حق نہیں چھینا جا سکتا'

بلوچستان کی طلبہ تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات بالاچ قادر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حکومت کی جانب سے طلبہ تنظیموں اور سول سوسائٹی کی آواز کو دبانے کے لیے ماضی میں بھی ایسے حربے استعمال کیے گئے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ایک جانب ہم نے حکومت کو لاپتا طلبہ کی بازیابی کے لیے 15 روز کی مہلت دے رکھی ہے تو دوسری جانب ایسا آرڈیننس جاری کیا گیا ہے جس سے طلبہ دوبارہ احتجاج نہ کر سکیں۔

بالاچ قادر کے مطابق دنیا کے کسی بھی مہذب معاشرے میں سوال کرنے اور اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے پر پابندی نہیں لگائی جاتی ہم اس قانون کی بھر پور مذمت کرتے ہیں۔

حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ آرڈنینس کے اجرا کا مقصد آئے روز بلوچستان کی مختلف شہروں اور قومی شاہراہوں پر احتجاج اور دھرنوں کے باعث عوامی مشکلات کو کم کرنا ہے۔

اس سلسلے میں حکومتی مؤقف جاننے کے لیے صوبائی مشیر اطلاعات بلوچستان بشری رند سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تو کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔