رپورٹر ڈائری؛ 'شدید شیلنگ ہے پتا نہیں فائل کہاں گری'

اندازہ تو تھا کہ جن مشکلات کے ساتھ عمران خان کی اسلام آباد آمد ہو رہی ہے اور لاہور میں جو حالات رہے اس کے بعد پولیس اور پی ٹی آئی ورکرز میں ہنگامہ آرائی ہوسکتی ہے لیکن حالات اس قدر کشیدہ ہوں گے اس کا اندازہ نہیں تھا۔

عمران خان کی پیشی کے لیے ایک رات پہلے سے ہی کنٹینرز کی دیوار بنا دی گئی تھی لیکن میں مطمئن تھا کہ صحافیوں کو کوریج کی اجازت دینے کے لیے جو فہرست بنی ہے اس میں میرا نام شامل ہے لہذا آرام سے کمرۂ عدالت تک رسائی ہوجائے گی۔

صبح ساڑھے دس بجے کے قریب جب جوڈیشل کمپلیکس سے ملحقہ کشمیر ہائی وے پر پہنچے تو تقریباً ایک کلومیٹر دور سڑک کنارے گاڑی کھڑی کی اور پیدل کمپلیکس کی طرف جانے والے موڑ پر پہنچا لیکن پولیس نے راستہ بند کر رکھا تھا۔

فہرست اٹھائے پولیس اہلکار سے کہا کہ میڈیا لسٹ میں نام چیک کرکے جانے دیں تو جواب ملا کہ آئی جی صاحب نے سب کا داخلہ بند کردیا ہے۔ کچھ مایوسی ہوئی لیکن اسی دوران وہاں نعرہ بازی کرنے اور پولیس کے قریب آنے والے کارکنوں کو پولیس نے حراست میں لینا شروع کردیا اوراس کی فوٹیج سے ہمارا کام شروع ہو گیا۔

کارکن بڑی تعداد میں صبح سے ہی کشمیر ہائی وے پر موجود تھے لیکن انہیں اندر جانے کی اجازت نہیں تھی۔کئی وکلااور سابق گورنر عمران اسماعیل کو بھی پولیس نے واپس بھیج دیا۔

اسی دوران عمران خان کے آنے کا شور بلند ہوا۔کئی دوسرے قائدین نے اس پوائنٹ سے آگے جانے کی کوشش کی لیکن پولیس نے کسی کی بھی نہ سنی جہاں 500 کے قریب اہلکار صرف داخلی راستے پر تعینات تھے۔

عمران خان اس انٹری پوائنٹ کے قریب آئے تو پولیس نے اس سے قبل ہی اپنی تمام گاڑیوں کو اس انداز میں پارک کیا کہ صرف ایک گاڑی یعنی عمران خان کی گاڑی اندر جاسکے اور باقی سب کو روکا جاسکے۔

ابھی اس انٹری پوائنٹ سے عمران خان کی گاڑی کوئی 50 میٹر دور ہو گی کہ اچانک پتھراؤ شروع ہو گیا۔ یہ پتھراؤ اس قدر شدید تھا کہ پولیس کی گاڑیوں کے شیشے ٹوٹنے کی باقاعدہ آوازیں سنیں اور ان گاڑیوں کی آڑ لینے کی کوششیں بھی ناکام رہیں۔ اس دوران کچھ پتھر کمر اور بازو پر بھی لگے۔

Your browser doesn’t support HTML5

عمران خان کی پیشی، اسلام آباد میں سارا دن کیا ہوتا رہا؟

اس دوران انٹری پوائنٹ پر لگے کنٹینرز کے اوپر کھڑے پولیس کے جوانوں نے شیلنگ شروع کردی اور غلطی سے اپنے ہی پولیس والوں پر شیل مار دیے۔ اس سے ایک عجیب بھگدڑ مچی جس میں پولیس اہلکار گاڑیاں بھگانے کی کوشش کررہے تھے اور زیادہ تر جوڈیشل کمپلیکس کی طرف بھاگ رہے تھے۔

شدید شیلنگ میں جان بچانے کے لیے ہم بھی پولیس اہلکاروں کے ساتھ بھاگے اور جوڈیشل کمپلیکس کے باہر پہنچ گئے جہاں اطراف سے پتھراؤ لگاتار ہوتا رہا۔

کئی افراد پتھروں سے زخمی ہوئے۔ یہاں ایک نئی مصیبت تھی کے پولیس نے چاروں طرف سے کنٹینرز سے راستہ بند کررکھا تھا اور بھاگنے کا کوئی رستہ نہیں تھا۔ باہر پتھراؤ ہو رہا تھا اور اندر شیلنگ۔

اسی دوران پولیس اہلکاروں نے اپنی گاڑیاں پتھراؤ سے بچانے کے لیے جوڈیشل کمپلیکس کے اندر کرنے کے لیے گیٹ کھولا تو ہم بھی اندر آگئے اور کورٹ روم میں پہنچ گئے۔

کورٹ روم میں ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال کچھ دیر کے بعد آئے تو بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ باہر حالات بہت خراب ہیں۔ عمران خان اندر آنا چاہتے ہیں لیکن پتھراؤ اور شیلنگ کے باعث ممکن نہیں۔

اس دوران عمران خان کی سیکیورٹی میں شامل عمر سلطان زخمی حالت میں کمرۂ عدالت میں داخل ہوئے اور بولے کہ ہم عمران خان کو اندر لانا چاہتے تھے لیکن دیکھیں کیا حال ہوا ہے۔

عمران خان کی طرف سے ان کے وکلا نے گیٹ پر ہی حاضری لینے کی درخواست کی جس پر جج ظفر اقبال نے اجازت دے دی اور عمران خان کے وکلا بھاگتے ہوئے باہر گئے لیکن کچھ لمحات بعد ہی واپس آئے اور بتایا کہ باہر عمران خان کے چیف آف سٹاف شبلی فراز کو پولیس نے گرفتار کرلیا ہے۔

اس پر جج ظفر اقبال نے اپنے قریب موجود پولیس اہلکاروں کو کہا کہ کسی بھی سینئر افسر کو ساتھ لے کر آئیں جس پر ایس پی سمیع اللہ آئے اور عدالتی حکم پر تین وکلا کے ساتھ عمران خان کی حاضری لینے کے لیے چلے گئے۔

کچھ دیر بعد ایس پی سمیع اللہ زخمی حالت میں پیش ہوئےاور بتایا کہ آرڈر شیٹ پر دستخط نہیں ہوسکے۔ شیلنگ اتنی تھی کہ معلوم نہیں کہ فائل کہاں گری؟ اس پر وکیل علی گوہر نے کہا کہ ویڈیوکلپ موجود ہے کہ ایس پی نے مجھ سے دستخط شدہ فائل لی۔

ایس پی نے فائل ڈھونڈنے کے لیے دس منٹ کا وقت مانگا تو سماعت میں وقفہ کردیا گیا، تاہم پولیس افسرفائل نہ لاسکے۔

عدالتی حکم پر ایس پی اور بیرسٹر علی گوہر کا بیان ریکارڈ کیا گیا اور فریقین کو تحریری بیان بھی جمع کرانے کی ہدایت کی گئی۔ جج نے ریمارکس دیے کہ عدالتی دستاویز کی گمشدگی کا کوئی حل نکالتے ہیں۔

اس دوران خواجہ حارث نے کہا کہ ایس پی سمیع اللہ جھوٹ بول رہے ہیں، اس پر ایس پی نے کہا کہ مجھے نہیں علم کہ عمران خان کے دستخط ہوئے یا نہیں، مجھ پر تشدد ہوا۔تاہم عدالت نے اس معاملے کو فی الحال نمٹاتے ہوئے عمران خان کو 30 مارچ کو ذاتی حیثیت میں دوبارہ پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔


باہر نکل کر انٹری پوائنٹ کے قریب آیا تو پولیس کی فارنزک میں استعمال ہونے والی ایک گاڑی کو کچھ دیر پہلے ہی آگ لگائی گئی تھی اور اس میں ابھی شعلے شروع ہی ہوئے تھے۔ لیکن اس کو بجھانے والا کوئی نہیں تھا اور صرف آگ لگانے اور ویڈیو بنانے والے تھے۔

اس سے کچھ ہی فاصلے پر ایک اور پولیس کی گاڑی شعلوں میں گھری کھڑی تھی اور اس سے کچھ فاصلے پر پی ٹی آئی کا ایک کارکن اپنی سیلفی لے رہا تھا۔ مجھے یوں لگ رہا تھا کہ اس جلتی ہوئی پولیس کی گاڑی کو وہ شاید وننگ ٹرافی سمجھ رہا تھا۔

اسی دوران اطلاع ملی کہ عمران خان ٹول پلازہ کراس کرکے لاہور کے لیے روانہ ہیں، ہم بھی دفتر کی طرف روانہ ہوئے لیکن اس دوران کمپلیکس کی طرف سے آنسو گیس کے شیلز فائر کرتے ہوئے پولیس اہلکار کشمیر ہائی وے تک پہنچ چکے تھے۔

مظاہرین کے پیچھے بھاگتے بھاگتے جی الیون سے نکل کر سیکٹر جی ٹین تک پہنچ چکے تھے۔ اس دوران ایک موٹرسائیکل پر سوار والد اپنے بچوں کے ساتھ موٹرسائیکل روک کر کھڑا ہو گیا کہ آنسو گیس کی وجہ سے بچے چلا رہے تھے اور والد کو خود کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔

گاڑی میں موجود پانی سے ان کی آنکھیں دھلوائیں ۔ بچوں کے والد نے کہا کہ پلیز کچھ دیر کے لیے بچوں کو گاڑی میں بٹھا دیں کیوں کہ اسے بہت تکلیف ہے۔