ہفتے کی صبح تقریباً ساڑھے سات بجے رپورٹنگ کے لیے زمان پارک پہنچا تو سب معمول کے مطابق تھا۔ پی ٹی آئی کے کارکن عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر موجود تھے۔ کارکنوں کی اکثریت عمران خان کی منتظر تھی کیوں کہ اُنہیں پیشی کے لیے اسلام آباد جانا تھا۔
عمران خان اسلام آباد عدالت میں پیشی کے لیے اپنے گھر سے روانہ ہوئے تو ہاتھ ہلا کر کارکنوں کے نعروں کا جواب دیا۔ وہ گاڑی میں بیٹھے تو بڑی تعداد میں کارکن بھی اُن کے ہمراہ چل دیے۔
عمران خان کے لاہور سے جاتے ہی پولیس اور انتظامیہ نے زمان پارک کی جانب جانے والے راستوں کو کنٹینرز اور دیگر رکاوٹوں کی مدد سے بند کرنا شروع کر دیا۔
زمان پارک میں دیگر صحافیوں کے ساتھ موجود مجھے بھی حیرانی ہوئی کہ راستے کیوں بند کیے جا رہے ہیں۔ ابھی اِس سوال کا جواب ڈھونڈ ہی رہا تھا کہ پنجاب پولیس کے جوان جن میں اینٹی رائٹ فورس کے اہلکار بھی شامل تھے زمان پارک پہنچ گئے۔
کچھ ہی دیر میں پولیس افسران واٹر کینن، قیدیوں والی گاڑی اور بکتر بند کاڑی کے ہمراہ زمان پارک پہنچ گئے۔ کرینیں اور لفٹر بھی وہاں پہنچا دیے گئے۔
پولیس ٹیم کی قیادت ڈی آئی جی انویسٹی گیشن سہیل سکھیرا جب کہ ضلعی انتظامیہ کی قیادت ڈپٹی کمشنر لاہور رافعہ حیدر کر رہی تھیں۔ دونوں سے پوچھا کہ بڑی تعداد میں پولیس اور انتظامیہ کے لوگ یہاں کیوں موجود ہیں؟ مشترکہ جواب ملا کہ اُن کے پاس علاقے کے سرچ وارنٹ ہیں جسے انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے جاری کیا ہے۔
بطور صحافی ایک پولیس اہل کار سے پوچھا کہ عمران خان تو یہاں موجود نہیں ہیں تو اَب آپ لوگ کیا کرنے لگے ہیں؟ پولیس اہل کار نے کوئی جواب نہیں دیا اور انگلی کی مدد سے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔
پاس ہی کھڑے دوسرے پولیس اہل کار سے پوچھا تو جواب دیا کہ آج آپریشن کلین اَپ ہو گا۔ پولیس کی نفری کو دیکھ کر پی ٹی آئی کے کارکنوں نے بھی اپنی صف بندیاں شروع کر دیں۔
اتنے میں پولیس اہل کاروں نے کارروائی شروع کی۔ پولیس نے کرینوں کی مدد سے عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر اور ارد گرد سے رکاوٹیں ہٹانا شروع کیں تو پی ٹی آئی کے کارکنوں نے مزاحمت شروع کر دی۔
پولیس اہلکاروں نے اُنہیں حراست میں لینا شروع کر دیا جس کے بعد پولیس اور انتظامیہ رکاوٹیں ہٹاتی ہوئی عمران خان کے گھر کے باہر پہنچ گئی جس پر عمران خان کی رہائش گاہ کے اندر موجود محافظوں نے اُن پر پتھراؤ شروع کر دیا۔
ہنگامہ آرائی مزید بڑھی اور پی ٹی آئی کے کارکنوں نے پولیس پر پیٹرول بم پھینکنا شروع کر دیے جس کے جواب میں پولیس نے آنسو گیس کا استعمال شروع کر دیا۔
اتنے میں ایک کرین عمران خان کے گھر کے مرکزی دروازے کے باہر پہنچ گئی جس پر عمران خان کے محافظوں نے پتھراؤ کیا مگر کرین اپنے کام میں لگی رہی۔ کرین نے پہلے ریت کی بوریوں اور اُن رکاوٹوں کو توڑا جن کی آڑ میں پی ٹی آئی کی جانب سے پولیس پر پتھراؤ کیا جا رہا تھا۔
بعدازاں پولیس نے عمران خان کے گھر کے مرکزی دروازے کو کرین کی مدد سے توڑا اور گرا دیا۔ دروازہ ٹوٹنے کے بعد پولیس اہل کار عمران خان کے گھر کے اندر داخل ہو گئے اور محافطوں کے کمروں کی تلاشی لینا شروع کر دی۔
واضح رہے عمران خان کے زمان پارک والے گھر کے دو حصے ہیں۔ ایک حصہ اُن کے باغیچے پر مشتمل ہے جہاں سے اُن کا ڈرائنگ روم نظر آتا ہے۔ دوسرا حصہ سیاسی سرگرمیوں کے لیے ہے، جہاں قائدین اور جماعت کے رہنماؤں کی آمد کے لیے انتظار گاہیں بنائی گئی ہیں۔
پولیس اور انتظامیہ کے لوگ آہستہ آہستہ عمران خان کے گھر کے اندر اور باغیچے کی بڑھنا شروع ہو گئے جہاں موجود گھر کے محافظوں کو حراست میں لے لیا گیا۔ باغیچے میں پیٹرول کا کین اور کچھ خالی بوتلیں پڑی تھیں۔ پولیس اہلکاروں نے آپس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اِس پیٹرول کا استعمال ہوتا تھا۔
پولیس اہل کاروں نے عمران خان کے گھر کے گیراج اور باغیچے والے حصے کی تلاشی شروع کر دی۔ مہمانوں کے انتظار والی جگہوں پر موجود ایک بڑے خیمے میں پولیس اہلکار داخل ہو گئے اور ایک ایک چیز کھول کر رکھ دی جس کو پولیس اہلکاروں نے اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔ ویڈیو کیمرہ دیکھ کر ایک پولیس اہلکار نے کہا کہ کیمرہ تو بند کر دیں۔
ابھی یہ چل ہی رہا تھا کہ فائرنگ کی آواز آئی اور اکٹھے دو فائر کیے گئے جس کے بعد پولیس اہلکار جو کہ اسلحے کے بغیر تھے پیچھے ہٹ گئے۔ پولیس نے آنسو گیس کا شیل پھینکا اور فائرنگ کرنے والوں کو حراست میں لے لیا۔ اِس کے ساتھ ہی کچھ اور پولیس اہلکار عمران خان کے گھر کی چھت پر جانے میں کامیاب ہو گئے۔
گھر کے عقب میں موجود سیڑھیوں کی مدد سے پولیس اہلکار بالائی منزل پر پہنچے اور وہاں موجود کمروں کی تلاشی شروع کر دی۔ جہاں سے چھپے ہوئے لوگوں کو حراست میں لیا گیا۔
اسی اثنا میں عمران خان کی چھوٹی بہن ڈاکٹر عظمٰی اپنے بیٹے کے ہمراہ وہاں پہنچ گئیں جنہیں پہلے پولیس نے روکا پھر اندر آنے دیا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر عظمٰی نے کہا کہ عمران خان کی اہلیہ بشرٰی بی بی گھر کے اندر موجود ہیں۔ وہ صرف اُن کی خیریت دریافت کرنے آئی ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ جس طرح سے پولیس نے آج کارروائی کی ہے اِس طرح تو کوئی دشمنوں کے ساتھ بھی نہیں کرتا۔
ڈاکٹر عظمٰٰی نے کہا کہ وہ یہاں اُس وقت تک موجود رہیں گی جب تک عمران خان واپس نہیں آ جاتے۔ اتنے میں ڈاکٹر عظمٰی کے بیٹے عمران خان کے گھر کے رہائشی حصے میں داخل ہوئے اور کچھ دیر بعد واپس نکل آئے۔
بطور صحافی میں نے پوچھا کہ بشرٰی بی بی کیسی ہیں؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ وہ خیریت سے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ کوئی اور نقصان ہوا ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ پولیس گھر کے رہائشی حصے میں داخل نہیں ہوئی۔ ساری کارروائی باہر کے حصے میں کی گئی۔
میں نے اُن سے پوچھا کہ کیا وہ مجھے سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج دے سکتے ہیں۔ میرے سوال پر اُنہوں نے گھر کے اندر کے محافظ سے پوچھا اور اُنہوں نے جواب دیا کہ سی سی ٹی وی کیمروں کو پولیس نے غیر فعال کر دیا تھا۔ ابھی اُن کے پاس کوئی فوٹیج موجود نہیں ہے۔
اِس کے بعد پولیس اہلکار مرکزی سڑک کینال پارک پر اکٹھا ہونا شروع ہو گئے اور نفری گننے لگے۔ پولیس اہل کاروں کے مطابق اُنہوں نے عمران خان کے گھر سے 16 رائفلیں بھی تحویل میں لی ہیں۔