بھارتی کشمیر میں پاسپورٹ کے اجرا میں تاخیر کی شکایات؛ شہری پریشان

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں ان دنوں پاسپورٹ کے اجرا میں تاخیر کا معاملہ یہاں کے باسیوں کے لیے مشکلات کا باعث بن رہا ہے اور ہزاروں درخواستوں زیرِ التوا ہیں۔

پاسپورٹ کے اجرا میں تاخیر کی وجہ سے جہاں تعلیم یا روزگار کی غرض سے بیرونِ ملک جانے کے خواہش مندوں بھی پریشان ہیں، وہیں مطالعاتی دوروں پر جانے کے خواہش مند سرکاری افسران بھی پاسپورٹ ملنے کے منتظر ہیں۔

بھارتی پاسپورٹ کے اجرا کے لیے بھارتی کشمیر کی پولیس اور اس کے شعبہ سی آئی ڈی کی جانب سے مثبت رپورٹ لازمی ہے۔ لیکن حالیہ عرصے میں مشتبہ عسکریت پسندوں یا علیحدگی پسند رہنماؤں سے تعلق کی بنا پر ہزاروں درخواست گزاروں کی منفی رپورٹ دی گئی ہیں۔

کئی درخواست گزاروں نے پاسپورٹ کے اجرا کے لیے عدالتوں سے بھی رُجوع کر رکھا ہے۔

جنوبی ضؒع کلگام کے محمد لطیف (نام تبدیل کیا گیا ہے) ان شہریوں میں شامل ہیں جنہیں عسکری تنظیم کے ایک رُکن کا رشتہ دار ہونے کی بنا پر پاسپورٹ نہیں دیا جا رہا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے محمد لطیف کا کہنا تھا کہ اُن کے ایک کزن تین برس قبل بھارتی فوج کے ساتھ ایک جھڑپ میں مارے گئے تھے جن کا تعلق حزب المجاہدین سے تھا۔

اُن کے بقول جب اُنہوں نے پاسپورٹ کے لیے درخواست دی تو پولیس رپورٹ میں اس واقعے کا ذکر کیا گیا اور اسی بنا پر پاسپورٹ آفس نے ان کی درخواست رد کر دی۔

'میرے کزن کے قصور کی سزا مجھے کیوں مل رہی ہے'

محمد لطیف نے استفسار کیا کہ "میرا کزن عسکریت پسند تھا، میں نہیں ہوں، مجھے ناکردہ گناہوں کی سزا کیوں دی جا رہی ہے۔"

محمد لطیف کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے یونیورسٹی آف کشمیر سے ایم ٹیک کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے اور چندی گڑھ کے ایک نجی ادارے سے ٹیکسٹائل ڈیزائننگ میں ڈپلومہ بھی کر رکھا ہے، لیکن کوشش کے باوجود انہیں سرکاری نوکری نہیں مل رہی۔

اُن کے بقول اسی وجہ سے وہ روزگار کے لیے بیرون ملک جانا چاہتے تھے، لیکن اب یہ رکاوٹ آڑے آ گئی ہے اور مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔

یونیورسٹی آف کشمیر کی ہی ایک طالبہ ارم (نام تبدیل کیا گیا ہے) نے بتایا کہ اُنہوں نے 2010 میں جاری کیے گئے پاسپورٹ کی تجدید کے لیے سرینگر پاسپورٹ آفس میں درخواست جمع کرائی، لیکن نئے پاسپورٹ کے اجرا میں تاخیر ہو رہی ہے۔

اُن کے بقول متعلقہ تھانے اور سی آئی ڈی نے اُن کے حوالے سے یہ رپورٹ بھی دے دی ہے کہ درخواست گزار غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث نہیں، لیکن اس کے باوجود پاسپورٹ آفس کا کہنا ہے کہ پولیس ویریفیکیشن رپورٹ آنا باقی ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

بھارتی کشمیر: غیر مقامی باشندوں کو ووٹ کا حق؛ کیا نیا سیاسی تنازع جنم لے رہا ہے؟

خوابوں کی تعبیر میں رکاوٹ

ڈاکٹر عمران حفیظ سرینگر کے شیرِ کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایس کے آئی ایم ایس)میں کارڈیالوجسٹ ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اُنہیں دسمبر 2022 میں ترقی پا کر ایڈیشنل پروفیسر بننا تھا، انٹرویوز میں کامیابی کے باوجود تاحال پولیس تصدیق نہ ہونے سے وہ اب بھی ترقی کے منتظر ہیں۔

ایس کے آئی ایم ایس انتظامیہ کا کہنا ہے کہ عمران حفیظ ایسے ڈاکٹروں میں شامل ہیں جنہیں مختلف انٹرویوز میں ان کی کامیاب شمولیت اور دیگر لوازمات کو پورا کرنے کے بعد ترقیوں سے نوازا جارہا تھا ۔ ان میں سے سات کے سوا سب نے نئے عہدے سنبھال لیے ہیں۔ لیکن جن سات ڈاکٹروں کی ترقی کے معاملے پولیس ویریفیکیشن موصول نہ ہونے کی وجہ سے التوا میں پڑے ہیں ان میں وہ بھی شامل ہیں۔

ڈاکٹر عمران جموں و کشمیر روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کے سابق عہدے دار مولوی مشتاق احمد کے بیٹے ہیں۔ مولوی مشتاق کو نامعلوم افراد نے 2004 میں فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔

مولوی مشتاق کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین میر واعظ عمر فاروق کے قریبی رشتے دار تھے۔ پولیس نے ان کے قتل کا ذمے دار عسکریت پسندوں کا قرار دیا تھا۔ پولیس کا کہنا تھا کہ یہ قتل واجپائی حکومت اور حریت کانفرنس کے درمیان نئی دہلی میں جاری مذاکرات میں رخنہ ڈالنے کے لیے کیا گیا۔

محبوبہ مفتی پاسپورٹ نہ ملنے پر برہم

جموں و کشمیر کے عام باشندوں کے ساتھ ساتھ سابق وزیرِ اعلٰی محبوبہ مفتی کے پاسپورٹ کی تجدید کا معاملہ بھی زیرِ التوا ہے۔ اُنہیں بھی پولیس کی جانب سے منفی رپورٹس اور ویریفیکیشن نہ ہونے کے باعث پاسپورٹ جاری نہیں کیا جا رہا ہے۔

محبوبہ مفتی نے اس حوالے سے بھارت کے چیف جسٹس کے نام خط بھی لکھا ہے جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ کشمیر میں صرف اُنہی افراد کے بنیادی حقوق محفوظ ہیں جو حکومت کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔

اُنہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ بھارت کے آئین میں تمام شہریوں کو جن بنیادی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے انہیں ڈھٹائی سے پامال کیا جا رہا ہے۔

محبوبہ مفتی نے گزشتہ ماہ بھارت کے وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر کو بھی ایک خط لکھا تھا جس میں انہوں نے ان سے انہیں پاسپورٹ جاری نہ کرنے کے معاملے میں مداخلت کرنے کی درخواست کی تھی۔

محبوبہ مفتی کے پاسپورٹ کی میعاد مئی 2019 میں ختم ہو گئی تھی جس کے بعد اُنہوں نے اپنی والدہ کے ہمراہ پاسپورٹ کے تجدید کی درخواستیں دے رکھی ہیں۔ لیکن سی آئی ڈی ان دونوں خواتین کے حوالے سے منفی رپورٹس دی ہیں اور کہا ہے کہ ان کو پاسپورٹ جاری کرنے سے بھارت کی قومی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

محبوبہ مفتی کی صاحبزادہ التجا مفتی نے بھی جون 2022 میں پاسپورٹ کی تجدید کی درخواست دی تھی جو آٹھ ماہ گزر جانے کے باوجود التوا میں ہے۔ التجا نے عدالت میں درخواست بھی دائر کر رکھی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ حصولِ علم کے لیے بیرونِ ملک جانا چاہتی ہیں، لیکن اُنہیں پاسپورٹ جاری نہیں کیا جا رہا۔

ناقدین جن میں انسانی حقوق کارکن اور حزبِ اختلاف کی بعض جماعتیں بھی شامل ہیں الزام لگاتے ہیں کہ جموں و کشمیر میں ایسے شہریوں کی تعداد 50 ہزار تک پہنچ گئی ہے جنہیں مختلف عذر پیش کرکے پاسپورٹ جاری کرنے سے انکار کیا گیا ہے۔

SEE ALSO: بھارتی کشمیر میں تین نوجوانوں کو جعلی مقابلے میں ہلاک کرنے والے فوجی افسر کو عمر قید

حکام کا مؤقف

سرینگر میں واقع علاقائی پاسپورٹ دفتر کے حکام کا کہنا ہے کہ پاسپورٹ کے لیے پولیس ویریفیکیشن لازمی ہے اور یہ حفاظتی اقدامات کا ایک حصہ ہے جس کی اہمیت ہے۔

ان کے بقول درخواست دہندہ کی ساکھ اور صداقت کی جانچ پڑتال اور یہ پتا کرنا کہ وہ کسی غیر قانونی یا مجرمانہ سرگرمی میں ملوث تو نہیں رہا ہے یا رہی ہے جاننا ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ پولیس تصدیق کے بغیر سفری دستاویز جاری کرنا ان کے دائرہِ اختیار میں نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ تصدیق متعلقہ تھانے کے ذریعے کرائی جاتی ہے جس کے دائرہِ اختیار میں درخواست گزار کا پتا درج کیا گیا ہوتا ہے۔

وزارتِ خارجہ نے ملک میں پاسپورٹ کےحصول کو آسان بنانے کے لیے حالیہ برسوں میں کئی اقدامات کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ پاسپورٹ جاری کرنے کے عمل میں سرعت لانے کے لیے گزشتہ ماہ 'ایم پاسپورٹ پولیس ایپ نام کی ایک نئی سہولت متعارف کرائی گئی۔

بھارت کے وزیرِ داخلہ امت شاہ نے گزشتہ ماہ نئی دہلی میں ایک تقریب کے دوران پولیس اہلکاروں کو ٹیبلٹ بھی تقسیم کیے تھے جو پاسپورٹ سے متعلق تصدیق کے لیے مختلف مقامات پر جاتے ہیں۔

سرینگر کے علاقائی پاسپورٹ افسر دیویندر کمار نے کہا کہ ان کے ہاں زیرِ التوا درخواستوں کی کُل تعداد دسمبر 2022 میں چھ ہزار سے زائد تھی جو اب گھٹ کر 2500 رہ گئی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ ہماری پوری کوشش ہے کہ مارچ کے آخر تک زیرِ التوا کیسز نمٹا دیے جائیں، لیکن پولیس کی تصدیق کے بعد ہی پاسپورٹ جاری کیا جا سکتا ہے۔

حج یا عمرے پر جانے والے افراد نے بھی پاسپورٹ کے حصول میں مشکلات کی شکایات کی تھیں جس پر حکام نے خصوصی کیمپ لگا کر ایسے افراد کو پاسپورٹ جاری کیے تھے۔ لیکن اب بھی کئی افراد کا کہنا ہے کہ پاسپورٹ نہ ملنے سے وہ مذہبی فریضے کی ادائیگی سے محروم ہیں۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی پولیس کے سربراہ دلباغ سنگھ نے کچھ عرصہ پہلے یہ اعتراف کیا تھا کہ بیرونِ ملک بالخصوص پاکستان اسٹوڈنٹ ویزا پر جانے والے خواہش مند افراد کی پولیس تصدیق کے معاملے میں سختی برتی جارہی ہے۔

اُنہوں نے دعویٰ کیا تھاکہ کئی معاملات سامنے آگئے ہیں جب بیرونِ ملک قیام کے دوران کشمیری طالب علم اُن کے بقول دہشت گردوں کے رابطے میں آگئے۔