پاکستان ميں کرونا وائرس کے باعث پہلے ہلاک ہونے والے شخص سعادت خان کا تعلق صوبہ خيبر پختونخوا کے ضلع مردان سے تھا۔ 50 سال سے زائد عمر کے سعادت خان نو مارچ کو عمرہ کی ادائیگی کے بعد پشاور کے باچا خان ايئر پورٹ پر پہنچے تھے۔
سعادت خان بعدازاں اپنے آبائی گاوں 'منگا' پہنچے اور حسب روايت عزيز و اقارب اور محلے والوں کے لیے دعوت کا اہتمام کيا۔ جس ميں ايک محتاط اندازے کے مطابق تقريباً دو ہزار افراد نے شرکت کی اور سعادت خان سے نہ صرف مصافحہ کيا بلکہ گلے بھی ملے۔
وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے سعادت خان کے بھانجے محمد عديل گل نے بتايا کہ اُن کے ماموں کو سعودی عرب میں ہی ہلکا بخار تھا۔ اُنہیں اس دوران تھکاوٹ بھی محسوس ہو رہی تھی۔ لیکن علاقے کے رواج کے تحت دعوت میں اُن کی شرکت لازمی تھی کیوں کہ ہر فرد کی خواہش ہوتی ہے کہ عمرہ ادا کرنے والے سے ملاقات کی جائے۔
محمد عديل کے بقول اُن کے ماموں کے ہمراہ دو اور افراد بھی عمرہ ادا کر کے واپس آئے تھے۔ اُن کے اہل خانہ نے بھی اسی نوعیت کی دعوتوں کا اہتمام کیا تھا۔
محمد عديل کہتے ہیں کہ وہ نو مارچ سے لے کر 18 مارچ تک اپنے ماموں کے ہمراہ تھے اور اس دوران وہ انہيں علاج معالجے کے لیے ڈاکٹرز کے پاس بھی لے کر گئے۔ لیکن کوئی افاقہ نہیں ہوا۔ عدیل کا کہنا ہے کہ 18 مارچ کو سعادت خان کا ٹیسٹ مثبت آیا۔ جس کے بعد حکام اُنہیں 'آئسولیشن سینٹر' لے گئے۔ جہاں شام کو اُن کے سینے میں تکلیف بڑھی اور سانس لینا بھی مشکل ہو گیا۔ اُسی روز اُن کا انتقال ہو گیا۔
سعادت خان پیشے کے لحاظ سے میڈیکل ٹیکنیشن تھے۔ عدیل کے بقول اُن کی وفات کے بعد اہل خانہ اور عزیز و اقارب کو آخری دیدار کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔ انتظامیہ نے ہی تدفین کا بندوبست کیا۔
حکام خدشہ ظاہر کر رہے ہیں سعادت خان کی وجہ سے درجنوں افراد میں کرونا وائرس منتقل ہوا۔
'سماجی روابط ہی بڑا خطرہ ہے'
پروفيسر ڈاکٹر خالد محمود وبائی امراض کے ماہر ہيں۔ اُن کے بقول بدقسمتی سے پاکستان کے رسم و رواج سماجی فاصلے کے برعکس ہیں اور لوگوں ميں شعور اور آگاہی کی کمی ہے۔
وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتايا کہ ابھی تک مساجد میں اجتماعات ہو رہے ہیں۔ لہذٰا مساجد کو اس مہم میں شامل کرنا ہو گا۔ کیوں کہ دیہی علاقوں میں جہاں تعلیم کا فقدان ہے۔ یہاں مساجد کے ذریعے ہی لوگوں کو آگاہی دی جا سکتی ہے۔
ڈاکٹر خالد محمود نے اُمید ظاہر کی کہ گرم موسم میں سماجی رابطے نسبتاً کم ہو جاتے ہیں۔ اور رمضان کے مہینے میں بھی ان میں کمی آئے گی۔ لہذٰا وائرس کا پھیلاؤ بھی قدرے کم ہو سکتا ہے۔
منگا کے رہائشی 41 سالہ دوست محمد علاقے میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا ذمہ دار ایئر پورٹ انتظامیہ کو قرار دیتے ہیں۔ اُن کے بقول سعادت کی صحت دیکھ کر اُنہیں ایئر پورٹ پر ہی روک لینا چاہیے تھا۔ لیکن عملے نے غفلت کی۔ اس کی قیمت پورا علاقہ بھگت رہا ہے۔
اُن کے بقول اگر سعادت خان میں وائرس کی بروقت تشخیص ہو جاتی تو نہ صرف اُن کی جان بلکہ علاقے کے درجنوں افراد کو وائرس سے بچایا جا سکتا تھا۔ دوست محمد کا کہنا ہے کہ مذکورہ یونین کونسل میں 14 ہزار رجسٹرڈ ووٹرز ہیں اور پورا علاقہ خوفزدہ ہے۔
دوست محمد کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔ مزدور طبقہ پریشان ہے اور کئی افراد اشیائے خورونوش سے بھی محروم ہو رہے ہیں۔
دوست محمد، جو سعادت خان کے قريبی رشتہ دار بھی ہيں نے مزيد بتايا کہ کرونا وائرس کے مثبت ٹيسٹ کے بعد جس انداز ميں انتظاميہ کی ٹيم سعادت خان کو لينے آئی اس سے وہ بے حد خوف ميں مبتلا ہو گئے تھے۔ اُنہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ سعادت خان کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی۔
تاہم مردان ميڈيکل کمپليکس کے ڈائريکٹر ڈاکٹر طارق محمود اس سے اتفاق نہيں کرتے۔ اُن کے بقول اب تو سعادت خان اس دُنیا میں نہیں رہے، لیکن اُن کی اس غفلت نے پورے علاقے کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر طارق نے مزيد بتايا کہ سعادت خان کو سعودی عرب ميں ان کی حالت ديکھ کر پيناڈول دی گئی تھی۔ کيوں کہ انہيں اپنی حالت ديکھ کر شبہہ تھا کہ وہ کرونا کے مريض ہو سکتے ہيں۔
ڈاکٹر طارق کے بقول سعادت خان خود طبی عملے کا حصہ تھے۔ لہذٰا اُنہیں احتیاط برتنی چاہیے تھے۔ اب اُن کے خاندان کے 39 افراد کا ٹیسٹ مثبت آیا ہے۔
ڈاکٹر طارق کا کہنا ہے کہ کرونا سے بچاؤ کا واحد علاج سماجی دوری اختيار کرنا ہے۔ وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے انتظامیہ نے منگا گاؤں کو لاک ڈاؤن کر دیا ہے۔