کھانسی کے زہر یلے اجزا والےسیرپ سے مختلف ملکوں میں سینکڑوں اموات کے بعد امریکہ کا خوراک اور ادویات کا ادارہ فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے)صحت کی دیکھ بھال کی مصنوعات تیار اور برآمدکرنے والی درجنوں کمپنیوں کو اپنی مصنوعات کی ٹیسٹنگ میں لا پرواہی پر انتباہ جاری کر رہا ہے ۔
خبر رساں ادارےرائٹرز نے ایف ڈی اے کے ادویات کی در آمد پر جاری کیے گئے انتباہ اور مصنوعات ساز کمپنیوں کو بھیجے گئے انتباہی خطوط کے تجزیے کے بعد یہ رپورٹ دی ہے کہ ایف ڈی اے نے اس سال کم از کم 28 کمپنیوں کو سرزنش کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ڈاکٹری نسخےکے بغیر فروخت ہونے والی ادویات اور صارفین کی مصنوعات میں استعمال ہونے والے زہریلے اجزا ، ایتھیلین گلائکول ( ای جی ) اور ڈائنتھیلین گلائکول ( ڈی ای جی )کی مناسب ٹیسٹنگ کرنے میں ناکام رہی ہیں ۔
ان میں امریکہ میں قائم کمپنیاں اور بھارت ، جنوبی کوریا ، سوئٹزر لینڈ ، کینیڈا اور مصر سے مصنوعات برآمد کرنے والی کمپنیاں شامل ہیں ۔
امریکہ اور دوسرے ملکوں کی جن 28 کمپنیوں کو انتباہی خطوط بھیجے گئے ہیں ان میں وارننگ دی گئی ہے کہ اگر ان کمپنیوں نے اپنے ٹیسٹنگ کے طریقے بہتر نہ کیے تو ان کی تمام مصنوعات کی برآمد یا در آمد بند کر دی جائے گی۔
SEE ALSO: کیمرون میں سیرپ سے ہلاکتیں، بھارت نے اس دوا کی مینیو فیکچرنگ روک دیرائٹرز کو پتہ چلا ہےکہ ایف ڈی اے نے گزشتہ پورے پانچ سال، حساس خام مواد کی جانچ میں ناکامی سے متعلق مجموعی طور پر اتنی زیادہ کمپنیوں کو انتباہ نہیں بھیجے تھے جتنے صرف 2023 میں بھیجے ہیں۔
ایف ڈی اے نے رائٹرز کو بتایا کہ اس کے پاس ایسے کوئی شواہد نہیں ہیں کہ ڈی ای جی اور ای جی سے آلودہ کوئی مصنوعات امریکہ کی سپلائی چینز میں داخل ہوئی ہیں ۔ اور ایک مخصوص عرصے کے دوران ہماری جانب سے جاری کیے گئے انتباہی خطوط ہماری کسی غلطی کی ٹھوس نشاندہی نہیں کرتے ۔
واشنگٹن ڈی سی میں ایک گلوبل لاء فرم ، پال ہسٹنگز میں ایف ڈی اے کے ضابطوں اور ان پر عمل درآمد کے ایک ماہر ، پیٹر لنڈسے کا کہنا ہے کہ آلودگی کا بہتر طور پر پتہ چلانے کے لیے اب ادارہ مصنوعات ساز کمپنیوں سے تقاضا کررہا ہےکہ وہ خام مواد کے محض نمونوں کےبجائے تمام کنٹینرز کو انفرادی طور پر چیک کروائیں ۔
بھارت اور انڈو نیشیا میں تیار کئےگئے کھانسی کے شربت کو دنیا بھر میں 300 سے زیادہ بچوں کی ہلاکت سے منسلک کیا گیا ہے۔ ان ادویات میں ڈی ای جی اور ای جی کی بہت زیادہ مقدار پائی گئی تھی جو گردوں کے شدید زخم اور موت کا باعث بنی۔
SEE ALSO: بھارت کی کھانسی کی دوا سے ازبکستان اور گیمبیا میں اموات، کیا الرٹ جاری ہو سکتا ہے؟ان اموات کے باعث دنیا بھر میں فوجداری مقدمات، چھان بین اور ضابطوں کی چھان بین کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ رائٹرز نے اس ماہ کے شروع میں خبر دی تھی کہ اس میں ملوث کچھ بھارتی دوا ساز کمپنیاں یہ ثابت نہیں کر سکیں کہ انہوں نے معیاری اجزا خریدے تھے یا اپنی ادویات کو زہریلے اجزاکے لیے ٹیسٹ کروایا تھا۔
امریکہ میں 1930 میں 100 سے زیادہ لوگ ، جن میں سے اکثر بچے تھے ، ڈی ای جی کی زہر خورانی سے ہلاک ہو گئےتھے ۔ اس کے نتیجے میں ایسے قوانین تشکیل دئے گئے جن میں ادویات پر ایف ڈی اے کی ریگولیٹری پاور میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا تھا۔
لیکن ادارے نے مئی 2023 تک ای جی اور ڈی ای جی جیسے انتہائی خطرناک اجزا کے لیے کوئی واضح ضابطے نہیں بنائےتھے ۔
ایف ڈی اے کے انتباہی خطوط اور گائیڈ لائنز ادویات ساز کمپنیوں کو یہ موقع فراہم کر رہی ہیں کہ وہ یا تو اپنی مصنوعات کے معیار پر کنٹرول کے مسائل کو حل کریں یا پھر نتائج کا سامنا کریں ۔
SEE ALSO: انڈونیشیا: بخار کی دوا سے 150 بچوں کی اموات، دوا ساز کمپنیوں کے خلاف کارروائیان میں سے نصف کمپنیوں کو پہلے ہی درآمد سے متعلق الرٹس موصول ہو گئے ہیں جن میں ایسی مصنوعات جن سے خطرہ ہو سکتا ہے کے ملک میں داخلے کی ممانعت کر دی گئی ہے اور کسٹم کے حکام کو اجازت دے دی گئی ہے کہ وہ ان کا جائزہ لیے بغیر انہیں روک دیں۔
خطوط کے مطابق ایف ڈی اے نے جن کمپنیو ں کا حوالہ دیا ہے ان میں سے گیارہ نے اس سال بچوں کے لیے اپنی کچھ خطرناک مصنوعات مارکیٹ کی تھیں ۔ ان میں اسہال اور پنک آئی کی ادویات شامل تھیں۔
( اس رپورٹ کا مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے۔)