ایک نئے بین الاقوامی جائزے سے ظاہر ہوا ہے کہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے نتیجے میں دنیا بھر میں اوسط عمر میں کمی ہوئی ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے صحت عامہ کے شعبے کے ماہرین کی ایک ٹیم نے پروفیسر نذر الاسلام کی قیادت میں امیر اور متوسط درجے سے زیادہ آمدنی رکھنے والے 37 ملکوں کی متوقع اوسط عمر میں ہونے والی تبدیلیوں کا جائز لیا۔
اس جائزے کے لیے 2005 اور 2019 کے عرصے کو ایک معیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اس کا موازنہ متوقع اوسط عمر میں ہونے والی تبدیلی سے کیا گیا۔
اس ہفتے سائنسی جریدے 'بی ایم جے' میں شائع ہونے والے مطالعاتی جائزے میں بتایا گیا ہے کہ روس میں متوقع اوسط عمر میں سب سے زیادہ کمی ہوئی ہے جہاں مردوں میں یہ کمی تقریباً دو سال چار ماہ اور خواتین میں دو سال ایک ماہ کے لگ بھگ تھی۔
اس کے بعد امریکہ کا نمبر ہے جہاں مردوں کی متوقع اوسط عمر میں تقریباً دو سال تین ماہ اور خواتین میں ایک سال سات ماہ کی کمی ریکارڈ کی گئی۔ اس فہرست میں تیسرے درجے پر بلغاریہ رہا جہاں مردوں کی متوقع اوسط عمر میں تقریباً دو سال اور خواتین میں ایک سال اور چار ماہ کی کمی ہوئی۔
محققین کا کہنا ہے کہ زیر مطالعہ 37 ممالک میں سے 31 ملکوں کی آبادی کی متوقع اوسط عمر میں کمی کا رجحان نوٹ کیا گیا اور مجموعی طور پر ان ممالک کو متوقع زندگی کے دو کروڑ 80 لاکھ برسوں کی کمی کا نقصان ہوا۔
رپورٹ کے مطابق چھ ممالک ڈنمارک، آئس لینڈ، نیوزی لینڈ، ناورے، جنوبی کوریا اور تائیوان میں یا تو متوقع اوسط عمر میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی یا وہاں اس کی شرح میں قدرے اضافہ نظر آیا۔
محققین کا کہنا ہے کہ ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے زیادہ تر ملکوں کو اس مطالعے میں شامل نہیں کیا گیا کیونکہ ان ملکوں کے اعداد و شمار دستیاب نہیں تھے، جب کہ ان ملکوں میں عالمی وبا کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر اموات ہوئی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اگر وہاں سے حقیقی اعداد و شمار دستیاب ہو سکیں تو کرونا وائرس کے نتیجے میں عالمی متوقع اوسط عمر میں مزید کمی ظاہر ہو گی۔
سن 2019 کے آخر میں چین کے ایک شہر ووہان سے پھوٹنے والی اس وبا کے نتیجے میں دنیا بھر میں اب تک 50 لاکھ سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں جب کہ اس فہرست میں ساڑھے سات لاکھ سے زیادہ اموات کے ساتھ امریکہ سر فہرست ہے۔