امریکہ میں کرونا وائرس سے اب تک چھ لاکھ 32 ہزار سے زائد اموات ہو چکی ہیں۔ جب کہ اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آئندہ تین ماہ میں مزید ایک لاکھ افراد ہلاک ہو سکتے ہیں۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر عوامی مقامات پر شہری ماسک کا استعمال شروع کر دیں تو یہ تعداد کم ہو کر نصف ہو سکتی ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے بات کرتے ہوئے یونیورسٹی آف ٹیکساس میں قائم کرونا وائرس کے ادارے کی ڈائریکٹر لارن اینسل مییرز کہتی ہیں کہ انسانی طرز عمل یہ طے کرے گا کہ کرونا وبا کی موجودہ لہر کس وقت نیچے جاتی ہے اور یہ کمی کتنی پائیدار ہوتی ہے۔
اینسل مییرز کا مزید کہنا تھا کہ وہ ڈیلٹا ویرئینٹ کو تو نہیں روک سکتے مگر ہم خود اپنے طرز عمل میں فوری تبدیلی ضرور لا سکتے ہیں۔
اس کی وضاحت کرتے ہوئے اینسل مییرز کا کہنا تھا کہ ماسک پہننے کو لازمی سمجھا جائے۔ سماجی ملاقاتیں کم کی جائیں۔ بیماری کی صورت میں گھر رہا جائے اور ویکسین لگوائی جائے۔
رواں سال موسم گرما میں امریکہ کرونا وبا کی چوتھی لہر کی لپیٹ میں ہے اور اس بار تیزی سے پھیلنے والے کرونا وبا کے ڈیلٹا ویرئینٹ کا سامنا ہے۔
امریکا میں ڈیلٹا ویرئینٹ کی وجہ سے کرونا کیسز میں اضافے کے ساتھ ساتھ اسپتالوں میں داخلوں اور اموات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
اسپتالوں میں مریضوں کے رش اور مسلسل کام کی وجہ سے تھکن کا شکار نرسز کے چہرے یہ کہانی بتا رہے ہیں کہ کس طرح وائرس پر قابو پانے کی کئی ماہ کی محنت پر پانی پھر چکا ہے۔
ملک میں روزانہ کی بنیاد پر اوسطاََ شرح اموات 1100 سے تجاوز کر چکی ہے۔ اس طرح کی صورت حال گزشتہ سال مارچ میں بھی نظر آئی تھی۔
یونیورسٹی آف واشنگٹن کے امریکہ میں کرونا وبا کے اثرات سے متعلق ایک تحقیق میں رواں سال دسمبر کے مہینے کی شروعات تک مزید 98 ہزار اموات کی پیش گوئی کی ہے جس کا مطلب ہے کہ اس سال دسمبر تک کرونا وائرس سے ہونے والی کل اموات کی تعداد سات لاکھ تیس ہزار کے قریب پہنچ جائے گی۔
اس تحقیق کے مطابق ماہ ستمبر کے وسط تک اموات کی تعداد ایک ہزار 400 یومیہ تک پہنچ جائے گی جس کے بعد یہ سست روی کے ساتھ بتدریج کم ہوگی۔
یہ تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ اگر امریکی وائرس کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا طرز عمل تبدیل کریں تو انسانی جانوں کے نقصان کو کم بھی جا سکتا ہے۔
اس تحقیق پر کام کرنے والے امریکی ریاست سیاٹل کی یونیورسٹی آف واشنگٹن میں ہیلتھ میٹرکس سائنسز کے پروفیسر علی موکداد بتاتے ہیں کہ لوگ ماسک پہن کر با آسانی 50 ہزار جانیں بچا سکتے ہیں۔
ویکسین لگوانے والوں کی تعداد میں اضافہ
ایسا لگ رہا ہے کہ کرونا وبا کی نئی تباہ کاریوں کو دیکھتے ہوئے امریکی شہری کچھ سنجیدہ بھی ہوئے ہیں۔
امریکہ میں ویکسین لگوانے کا عمل جو سست روی کا شکار تھا، اس میں ڈیلٹا ویرئینٹ کی وجہ سے بڑھتے ہوئے کیسز کی وجہ سے پھر سے تیزی آئی ہے۔
ویکسین لگوانے والوں کی تعداد میں روزانہ کی بنیاد پر 80 فی صد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور ایک ماہ کے اندر ویکسین کی نو لاکھ خوراکیں دی گئی ہیں۔
کرونا وائرس سے متعلق وائٹ ہاؤس کے کوآرڈینیٹر جیف زینٹس کے مطابق ریاست الاباما، آرکینساس، لوزیانا اور مسی سپی میں گزشتہ ایک ماہ میں ویکسین کی اتنی خوراکیں دی گئیں جو اس سے پہلے کے دو ماہ کو ملا کر بھی نہیں دی جاسکی تھیں۔
جیسے جیسے امریکہ میں اسکولز اور کالجز کھل رہے ہیں طلبہ کو لازمی ماسک پہننے کی ہدایات دی جا رہی ہیں۔
فائزر ویکسین کو وفاقی حکومت کی جانب سے مکمل منظوری ملنے کے بعد بہت سی کمپنیاں اور آجر اپنے ملازمین سے لازمی ویکسین لگوانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
امریکی شہروں نیو یارک اور نیو اورلینز کے ریستورانوں میں طعام کے لیے آنے والے صارفین سے ویکسینیشن کرانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
تاہم دوسری طرف جارجیا، کینٹکی، جنوبی کیرولائنا، ٹینیسی، مغربی ورجینیا اور وائیومنگ جیسی امریکی ریاستیں ہیں جہاں نئی کیسز کی تعداد میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
موکداد کہتے ہیں کہ یہ بات انہیں بےچین کرتی ہے کی وائرس کو قابو کرنے کے لیے شہری وہ سب نہیں کر رہے، جو انہیں کرنا چاہیے۔ ان کے بقول انہیں سمجھ نہیں آتا، یہ ایسا ہے جیسے آگ لگی ہو اور کوئی فائر ٹرک استعمال نا کرے۔
اس خبر کے لیے مواد امریکی خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹد پریس' سے لیا گیا ہے۔