پاکستان کے صوبۂ سندھ کے ضلع شکارپور کے کچے کے علاقے میں اغوا شدہ افراد کی بازیابی کے لیے پولیس آپریشن کے دوران ڈاکوؤں کے ہاتھوں تین پولیس اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد شمالی سندھ میں فعال ڈاکوؤں کے راج کے مسئلے پر دوبارہ بحث چھڑ گئی ہے۔
رواں ہفتے پولیس اہلکاروں کی ایک ٹیم ضلع شکارپور میں کچے کے علاقے میں کچھ دن قبل ڈاکوؤں سے کچھ مغویوں کو بازیاب کرانے گئی تھے جہاں آپریشن کے دوران ڈاکوؤں نے جدید ہتھیاروں سے پولیس اہلکاروں کی بم پروف بکتر بند گاڑی پرحملہ کر دیا جس سے تین اہلکار ہلاک ہوئے۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے واقعہ کا نوٹس لیا اور ان کی ہدایت پر وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید سندھ پہنچے۔
وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید نے 27 مئی کو وزیرِ اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور گورنر سندھ عمران اسماعیل سے بھی اس حوالے سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کی۔
شیخ رشید نے 26 مئی کو کراچی میں پاکستان رینجرز سندھ کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل افتخار حسن چوہدری سے ملاقات کی۔ اس حوالے سے حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کے لیے رینجرز کو دیہی سندھ کے اضلاع میں تعینات کرنے کی تجویز پر سندھ حکومت سے بات چیت کرے گی۔
وزیرِ اعظم کے اعلان کے بعد سندھ کے وزیرِ اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے بھی شکارپور پہنچ کر ضلعی پولیس کے دفتر میں واقعے کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے ڈاکوؤں کے خلاف شکارپور، کشمور، کندھ کوٹ، گھوٹکی کے کچے کے ڈیڑھ لاکھ ایکڑ کے علاقے پر ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن شروع کرنے کی ہدایات جاری کی ہے۔ وزیرِ اعلیٰ سندھ نے ساتھ ہی ساتھ ڈویژن اور ضلع کے پولیس سربراہان کو تبدیل کرنے کا اعلان بھی کیا۔
شمالی سندھ کے ڈاکو گروہ
شمالی سندھ کے دریائے سندھ سے ملحقہ اضلاع میں ڈاکو گروہ گزشتہ کئی دہائیوں سے فعال ہیں جن پر قتل، اغوا برائے تاوان اور دیگر سنگین جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات لگتے رہتے ہیں۔
علاقے سے باخبر مبصرین اور پولیس افسران کا خیال ہے کہ ڈاکوؤں کے گروہوں کے ٹھکانے کچے کے علاقے میں ہوتے ہیں۔ کچہ دریائے سندھ کے دونوں کناروں پر موجود دیوار نما بندوں کے درمیان والے علاقے کو کہتے ہیں جس کا بنیادی مقصد دریا میں طغیانی کی صورت میں سیلاب کو روکنا ہوتا ہے۔
پولیس افسران کا کہنا ہے کہ کچے کے علاقے میں گھنے جنگل اور دریا کے اندر جزیرہ نما بستیاں انہیں ناقابلِ تسخیر بنا دیتی ہے۔
ماضی کے ’کاسمٹیک‘ آپریشنز
پولیس افسران اور مبصرین کہتے ہیں کہ گزشتہ تین دہائیوں میں دو آپریشنز کے علاوہ حکومتوں کی جانب سے ڈاکوؤں کے خلاف کیے گئے سارے آپریشن صرف کاغذوں میں تھے۔
شمالی سندھ میں امن و امان کی صورتِ حال پر گہری نظر رکھنے والے سکھر کے صحافی ممتاز بخاری کا کہنا ہے کہ "1992 میں شروع ہونے والے ڈاکو گروہوں کے خلاف فوجی آپریشن اور بعد میں پولیس کیڈر افسران جیسے اے ڈی خواجہ، ثناء اللہ عباسی، بشیر میمن وغیرہ کی جانب سے شروع کیے جانے والے آپریشنز میں ڈاکوؤں کے خلاف حقیقی طور پر کارروائی کی گئی۔"
وائس آف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "ان دو آپریشنز کے علاوہ سندھ کے کچے کے علاقے میں ڈاکو گروہوں کے خلاف اب تک ہونے والے سارے آپریشن ’کاسمیٹک‘ ہیں جن میں پہلے ہی سے طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت ڈاکوؤں کے اڈے جلاتے ہوتے دکھائے جاتے ہیں۔"
سن 1990 میں بننے والی میاں نوازشریف کی حکومت نے سندھ میں امن و امان کی بحالی کے لیے کراچی میں سیاسی جماعتوں کے مبینہ عسکری گروہوں کے ساتھ ساتھ شمالی سندھ میں بھی ڈاکوؤں کے گروہوں کے خلاف فوجی آپریشن شروع کیا۔
اس وقت شکارپور میں فرائض سرانجام دینے والے ایک ریٹائرڈ پولیس افسر نے بتایا کہ ’’ضیاء الحق کی فوجی آمریت کے خلاف پاکستان پیپلز پارٹی کی سربراہی میں بننے والے اتحاد ’بحالی جمہوریت تحریک‘ ( یا ایم آر ڈی) کو دبانے کے لیے پاک فوج کے استعمال کیے جانے کے سبب شمالی سندھ کے دیہات میں ڈاکوؤں کے خلاف فوجی آپریشن شروع ہونے کے حوالے سے کافی خدشات تھے۔ مگر چھ ماہ کے اندر ہی فوجی آپریشن میں بڑے بڑے ڈاکوؤں کو ایک جارحانہ پالیسی کے تحت قتل یا گرفتار کرنے کے بعد یہ خدشات تبدیل ہو گئے۔‘‘
ان کے بقول، ’’اس فوجی آپریشن میں لائق چانڈیو (جو چینی انجینئرز کو اغوا کرنے سے مشہور ہوا تھا)، لطیف چانڈیو (جس نے بولان ایکسریس ٹرین کے 100 مسافر اغوا کیے تھے)، کاروکر کلی، نبو جونیجو، سکندربروہی، دیدار سنگرانی، گلاب جسکانی اور حسن چانڈیو سمیت درجنوں اس وقت کے بڑے بڑے ڈاکو یا تو مارے گئے یا گرفتار ہوئے۔
مگر وہ کہتے ہیں کہ ’’فوج کے واپس چلے جانے کے بعد دوبارہ ڈاکو فعال ہو گئے اور اب تک دیہی سندھ میں سیکیورٹی کی صورتِ حال ان کی وجہ سے خراب ہے۔‘‘
ڈاکو پولیس پرحاوی کیوں ہو جاتے ہیں؟
ماضیٔ قریب میں بھی ان ڈاکو گروہوں کے خلاف پولیس نے کچے کے علاقے میں جتنے بھی آپریشن شروع کیے وہ آپریشن نہ صرف ناکام رہے ہیں بلکہ ان آپریشنز میں پولیس کو جانی نقصان کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
وزیرِ اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے بھی 26 مئی کو اعتراف کیا کہ اب تک شکارپور میں 94 پولیس اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔
اگست 2019 میں جب جگر جلال کے نام سے معروف سندھی گلوکار غلام چانڈیو اور ان کے ساتھیوں کو ڈاکوؤں نے تاوان کے لیے اغوا کیا تو پولیس کی جانب سے ان کی بازیابی کے لیے شکارپور میں پولیس آپریشن میں ڈی ایس پی کے عہدے پر فائز پولیس افسر راؤ شفیع اللہ بھی بکتر بند گاڑی پرڈاکوؤں کے حملے میں ہلاک ہوئے تھے۔
اس واقعے کے بعد پولیس نے دعویٰ کیا کہ جگر جلال ایک پولیس کارروائی میں بازیاب کرا لیے گئے جب کہ جگر جلال نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی بازیابی ڈیل کے تحت ہوئی تھی۔
ڈی ایس پی راؤ شفیع اللہ کی ہلاکت کے بعد بھی وزیراعلیٰ سندھ سید مرادعلی شاہ نے بھی سندھ کے مختلف اضلاع میں ڈاکوؤں کے خلاف کارروائی کرنے کا اعلان کیا مگر مبصرین کہتے ہیں کہ اس اعلان پرعمل درآمد نہیں ہوا۔
SEE ALSO: شمالی سندھ میں خونریز قبائلی تنازعات پر قابو کیوں نہیں پایا جا سکا؟پولیس افسران کہتے ہیں کہ ڈاکو گروہ پولیس آپریشنز میں اینٹی کرافٹ گن جیسے جدید ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہیں جو بکتربند گاڑیوں میں بیٹھے پولیس افسران کو بھی نہیں بچا سکتی۔
تین پولیس اہلکاروں کی حالیہ ہلاکت کے واقعے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو میں دکھایا جا رہا ہے کہ ڈاکوؤں کی گولیاں پولیس کی بکتر بند گاڑی کے آر پار ہو گئی ہیں۔
سوشل میڈیا پر موجود وائرل تصاویر میں ڈاکوؤں کے پاس کلاشنکوف، راکٹ لانچر، اینٹی کرافٹ گن اور دیگر جدید ہتھیار دکھائے گئے ہیں۔
شکارپور اور گھوٹکی میں پولیس میں مختلف عہدوں پرفرائض سرانجام دینے والے ایک سینئر پولیس افسر نے تصدیق کی ہے کہ سندھ میں فعال ڈاکو گروہ جدید ہتھیار استعمال کرتے ہیں جو انہیں بلوچستان اورخیبرپختونخوا کے سابق قبائلی علاقہ جات سے آسانی سے اسمگل ہو کر کچے کے علاقے میں پہنچ جاتے ہیں۔
قبائلی سرداروں کی سرپرستی
سندھ پولیس نے ضلع شکارپور میں تین پولیس اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد ایک قبائلی سردار تیغو خان تیغانی کو کراچی میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کر کے انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں پیش کر دیا۔
ڈاکوؤں کی پشت پناہی کرنے کے الزام میں انہیں پولیس مقابلے کے بعد 23 مئی کو شکار پور کے ایک تھانے میں درج ہونے والی ایف آئی آر کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا۔
خیال رہے کہ تیغو خان تیغانی کو جون 2020 میں کشمور کندھ کوٹ اور شکارپور کے ضلعی پولیس سربراہوں کی موجودگی میں ایک پروگرام میں امن ایوارڈ دیے جانے پر سندھ پولیس پر بڑی تنقید ہوئی تھی۔ ڈاکوؤں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے ڈی ایس پی راؤ شفیق اللہ کے بیٹے نے سندھ ہائی کورٹ کو خط لکھا جس میں کہا گیا تھا کہ ’’تیغو خان تیغانی پر خطے میں ڈاکوؤں اور مجرمان کی پشت پناہی کے الزامات ہیں اوران کے والد کے قتل میں ملوث ڈاکوؤں کو بھی انہی نے پناہ دی تھی۔
راؤ شفیع اللہ کے بیٹے نے شکاپور کے سابق ضلعی سربراہ ڈاکٹر رضوان کی 2019 میں جاری کردہ اس رپورٹ کا حوالہ بھی دیا جس میں بتایا گیا کہ تیغو خان تیغانی کے سندھ حکومت کے وزرا کے ساتھ مبینہ طور پر قریبی تعلقات ہیں۔
ڈاکو گروہوں کی افرادی قوت
شمالی سندھ کے سیاسی و سماجی حالات کا مطالعہ کرنے والے مبصرین ڈاکوؤں کا قبائلی تنازعات سے اہم تعلق جوڑتے ہیں۔
صحافی ممتاز بخاری کہتے ہیں کہ ’’کسی بھی قبائلی لڑائی میں قتل کے واقعات ہونے کے بعد مخالف قبائل کے درجنوں افراد کے خلاف تھانوں میں مقدمات درج ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ مجبوراً مفرور ہو کر کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے پاس پناہ لیتے ہیں جو انہیں اپنی مجرمانہ سرگرمیوں میں استعمال کرتے ہیں۔ ‘‘
ممتاز بخاری کے بقول،’’گروہوں میں شامل نچلی سطح کے ڈاکوؤں نے پولیس تفتیش کے دوران بتایا کہ 20 سے 30 لاکھ کے اغوا برائے تاوان یا لوٹ مار میں انہیں صرف 20 سے 25 ہزار روپے ملتے ہیں۔ ‘‘
خیال رہے کہ حال ہی میں عیدالفطر کے تیسرے روز صوبۂ سندھ کے ضلع کشمور کندھ کوٹ میں ایک قبائلی تنازع میں 10 افراد ہلاک ہوئے جب کہ شمالی سندھ میں برسوں سے جاری درجنوں دیگر قبائلی تنازعات میں اب تک سیکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
مبصرین یہ بھی کہتے ہیں کہ ماضی میں ڈاکوؤں کو ان کے نام سے پہچانا جاتا تھا جیسے پرو چانڈیو، محب جسکانی، صدورو شیخ، محب شیدی، صادو ناریجو، نظرو ناریجو، نادر جسکانی۔
ممتازبخاری کے بقول ’’مگر اب ڈاکو اپنے قبیلے برادری کے نام سے جانے جاتے ہیں، جیسے تیغانی برادری کے ڈاکو یا شر برادری کے ڈاکو۔‘‘
پولیس افسر نے یہ بھی انکشاف کیا کہ شمالی سندھ کے اضلاع میں مقامی پولیس اہلکار بھی ڈاکوؤں کی اغوا برائے تاوان کی کارروائیوں میں مدد کرتی تھی اور یوں پولیس، مخبر، مددگار اور حمایتیوں کو ان کارروائیوں سے تاوان کی صورت میں ملنے والی رقم میں حصہ دیا جاتا تھا۔
نشانہ کون؟
مبصرین اور پولیس افسران کہتے ہیں کہ ڈاکو گروہ مرکزی شاہراہوں پر گزرنے والے ٹرکوں اور بسوں کو لوٹنے اور افراد کو تاوان کی ادائیگی کے لیے اغوا کرنے کے ساتھ ساتھ شمالی سندھ کے مالدار تاجروں کو اغوا کرتے رہتے ہیں۔ جب کہ ابھی بھی شکارپور اور کشمور کے علاقوں میں رات کو بسیں اور ٹرک کانوائے کی صورت میں گزرتے ہیں۔
پاکستان کے صوبۂ خیبر پختونخوا کے ضلع شمالی وزیرستان کے رکن صوبائی اسمبلی میرکلام وزیر نے 24 مئی کو صوبائی اسمبلی میں سندھ کی شاہراہوں پر خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے ٹرک ڈرائیورز اور کلینرز کا ڈاکوؤں کے ہاتھوں اغوا کی بڑھتی ہوئی وارداتوں پر تحریک التوا جمع کرائی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’سندھ کی شاہراہوں پر روزانہ کی بنیاد پر خیبر پختونخوا کے کاروباری افراد اور ٹرانسپورٹرز کو یا تو اغوا کیا جاتا ہے اور فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کچھ دن قبل شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے مامیت خیل قبیلے کے دو نوجوان ڈرائیورز کو شکارپور کے قریب ڈاکوؤں نے اغوا کیا۔
شمالی سندھ کے ہندو رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ڈاکو گروہ کے اغوا برائے تاوان کی کارروائیوں کا اہم ہدف شمالی سندھ کی ہندو کمیونٹی ہے جو گھوٹکی، شکارپور اور دیگراضلاع میں زرعی ادویات اور زرعی اجناس کے علاوہ سونے کے کاروبار سے منسلک ہیں۔
سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے نام شائع نہ کرنے کی شرط پر شکارپور کے ایک ہندو تاجر رہنما نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ہندو کمیونٹی کے بڑے کاروبار کی وجہ سے ڈاکو گروہ کی جانب سے وہ مسلسل نشانہ پر ہیں جس کی وجہ سے کئی تاجروں نے اپنے اہلِ خانہ کو اغوا کے خوف سے کراچی اور حیدر آباد منتقل کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ڈاکو گروہوں کے ہاتھوں اغوا ہونے سے بچنے کے لیے اکثر ہندو تاجروں نے اپنے ساتھ مقامی سرداروں کو سرمایہ کاری کیے بغیر 20 فی صد کاروباری شراکت دے رکھی ہے تاکہ ان کی وجہ سے وہ اغوا نہ ہو سکیں۔
ضلع گھوٹکی میں 11 مئی کو جوتوں کے ایک ہندو موچی موہن لال کو ڈاکو گروہ نے 50 لاکھ روپے تاوان کے عوض اغوا کیا تھا جس کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد وہ ایک مبینہ پولیس مقابلے میں وہ بازیاب کرا لیے گئے۔
ہندو تاجر رہنما نے اس حوالے سے دعویٰ کیا کہ موہن لال پولیس آپریشن کے ذریعے نہیں بلکہ سندھ حکومت کی ایما پر گھوٹکی کے ایک رکن سندھ اسمبلی کی کوششوں سے بازیاب ہوئے کیوں کہ اغوا کرنے والے ڈاکو بھی ان ہی کے قبیلے کے تھے۔
ڈاکوؤں کے سر کی قیمتیں
کچے کے علاقے میں فعال ڈاکو گروہ کے سرکردہ رہنماؤں کے سر کی قیمتیں رکھنے یا بڑھانے کے لیے 26 مئی کو سندھ پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے ڈی آئی جی عمر شاہد حامد کی زیرِ صدارت ایک اہم اجلاس کراچی میں ہوا۔
اجلاس میں کچے کے ڈاکوؤں کی فہرست کا جائزہ لیا گیا اور ڈاکو منیر مصرانی کے سر کی قیمت 10 لاکھ سے ایک کروڑ روپے اور ڈاکو لڈو تیغانی کے سر کی قمیت پانچ لاکھ روپے کرنے کے ساتھ ساتھ واجد کنڈرانی، واشو بنگلانی، بھارو ڈاھانی، خان محمد ڈاھانی، سرور کٹوہر، کشو گلوانی اورحضوربخش بنگلانی نامی ڈاکوؤں کے سر کی قیمتیں لگانے کی سفارشات کی گئی۔
جنوبی پنجاب کے ڈاکو گروہ
سندھ کے کچے کے علاقے کے ساتھ ساتھ متصل جنوبی پنجاب کے متعدد اضلاع میں بھی متعدد ڈاکو گروہ فعال ہیں۔
رواں ہفتے جنوبی پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان کے ایک نیم قبائلی علاقے میں لادی گینگ کے نام سے مشہور ڈاکو گروہ نے پولیس کے دو مبینہ مخبروں کے اعضا کاٹ کر قتل کرنے اور اس کی ویڈیو وائرل کی تھی۔
وزیرِاعظم عمران خان نے 26 مئی کو صوبۂ پنجاب کے ضلع لیہ میں ایک حکومتی تقریب میں اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے آئی پنجاب اور رینجرز کے صوبائی سربراہ کو ان کے خلاف ایکشن لینے کی ہدایت کی ہے۔
مبصرین کہتے ہیں کہ جنوبی پنجاب میں فعال متعدد ڈاکو گروہ، خصوصاً بدنام زمانہ چھوٹو گینگ، 2016 میں حکومت اور فوج کی جانب سے مشترکہ آپریشنز میں کافی کمزور ہو چکے ہیں۔
ضلع رحیم یارخان میں مقیم صحافی افضل حسین کہتے ہیں کہ جنوبی پنجاب اور شمالی سندھ کے کچے کے علاقے آپس میں جڑے ہونے کی وجہ سے دو خطوں کے ڈاکو گروہ ایک دوسرے سے تعاون کرتے تھے۔
ان کے بقول ’’ماضی میں جب چھوٹو گینگ کے خلاف حکومت آپریشن شروع کرتی تھی تو وہ شمالی سندھ کے کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے پاس پناہ لیتے تھے اور جب سندھ کے کچے میں آپریشن کی صورت میں وہ راجن پور اور جنوبی پنجاب کے دیگر علاقوں کے کچے کے علاقوں کا رخ کرتے تھے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ جنوبی پنجاب اور شمالی سندھ کے ڈاکو اکثر مغویوں کا تبادلہ بھی کرتے ہیں یعنی کسی مغوی کے حوالے سے پولیس کا دباؤ بڑھ جائے تو اس کو کسی اور مقام پر منتقل کر دیا جاتا ہے۔
ڈاکوؤں کی تاریخ
سیاسی مبصرین کا ایک حلقہ سمجھتا ہے کہ ان علاقوں میں ڈاکو گروہوں کو جنرل ضیاالحق کے دور میں حکومت مخالف جمہوری تحریک (ایم آر ڈی) کو کمزور کرنے کے لیے منظم کیا گیا۔
البتہ بعض محققین کہتے ہیں کہ سندھ میں ڈاکوؤں کی موجودگی کا ذکر سولہویں صدی اور اٹھارہویں صدی کے تاریخی حوالوں میں بھی ہوتا رہا ہے۔
ماضی میں 'نیوز لائن' اور 'بی بی سی' سے وابستہ نیویارک میں مقیم صحافی حسن مجتبی نے شمالی سندھ کے ڈاکوؤں پر کئی تحقیقاتی تحریریں لکھی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’’سولہویں صدی سندھ میں سیہون کے پاس ڈاکوؤں کے ہاتھوں لوگوں کے قتل اور پھر کئی دنوں تک ان کی لاشیں پڑی رہنے کا ذکر ابنِ بطوطہ کے سفرناموں میں بھی میں ملتا ہے۔ مگر اٹھارویں صدی میں کلہوڑا دور میں سندھ میں ڈاکوؤں کی موجودگی کا باقاعدہ ریکارڈ بھی ملتا ہے۔ اسی طرح معروف سندھی شاعر شاہ عبدالطیف بھٹائی کی شاعری میں بھی ڈاکو لاکھو پھلانی کا ذکر ہے۔‘‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ ماضی میں ان ڈاکوؤں کی زندگی پر فلمیں میں اور ڈرامے بھی بنتے رہے ہیں جن میں انہیں ہیرو کے روپ میں پیش کیا گیا جس پر کچھ حلقوں کی جانب سے تنقید بھی کی گئی۔