سپریم کورٹ آف پاکستان نے امریکی صحافی ڈینئل پرل کیس کے ملزمان کی جانب سے سرکاری ریسٹ ہاؤسز میں علاج اور دیگر سہولیات کی عدم فراہمی کی شکایات پر سندھ حکومت کو نوٹس جاری کر دیا ہے۔
ملزمان کے وکلا نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ ملزمان کو اپارٹمنٹ میں طبی و دیگر سہولیات فراہم نہیں کی جا رہیں۔
مرکزی ملزم احمد عمر شیخ کے وکیل کا کہنا تھا کہ احمد عمر شیخ کو فلیٹ میں نقل و حرکت کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی جس پر حکومتی وکیل نے کہا کہ یہ کہنا درست نہیں کہ کمروں میں نقل وحرکت نہیں کرنے دی جاتی، حقیقت یہ ہے کہ صرف فلیٹس کو لاک کردیا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے 28 جنوری کو ڈینئل پرل قتل کیس میں تمام ملزمان کو بری کرتے ہوئے رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔ عدالتی فیصلے کے اگلے ہی روز سندھ حکومت نے سپریم کورٹ میں نظرثانی کی اپیل دائر کی تھی۔
وفاقی حکومت نے بھی ان ملزمان کی عدم رہائی کے لیے استدعا کی تھی جس پر عدالت نے ملزمان کو جیل کے احاطے ہی میں رہائشی ماحول فراہم کرنے کی مشروط اجازت دی تھی۔
بعدازاں مرکزی ملزم احمد عمر شیخ کے اہلِ خانہ کی لاہور میں موجودگی کے باعث اُنہیں مارچ میں لاہور منتقل کر دیا گیا تھا۔
بدھ کی سماعت میں مزید کیا ہوا؟
ڈینئل پرل کیس کے ملزمان کی نظربندی سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔
سماعت کے دوران ملزمان کے وکیل نے کہا کہ ملزمان فہد نسیم، شیخ عادل اور سلمان ثاقب نے مجھے شکایتی خط بھیجا ہے، جس میں ان کا کہنا ہے انہیں اپارٹمنٹ میں طبی و دیگر سہولیات فراہم نہیں کی جا رہیں۔
اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم ملزمان کی شکایت پر سندھ حکومت کو نوٹس جاری کر رہے ہیں۔
کمرۂ عدالت میں موجود مرکزی ملزم احمد عمر شیخ کے وکیل محمود احمد شیخ نے کہا کہ میرے موکل احمد عمر شیخ کو فلیٹ میں نقل و حرکت کی اجازت نہیں دی جاتی۔
اس پر ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل پنجاب فیصل چوہدری نے عدالت کو یقین دہانی کروائی کہ احمد عمر شیخ کی اپارٹمنٹ میں نقل و حرکت پر کوئی پابندی نہیں ہو گی۔
محمود اے شیخ نے کہا کہ احمد عمر شیخ کو صرف بیٹے اور بیوی سے ملنے دیا جاتا ہے جب کہ ان کی ساس، چچا اور چچی اور دیگر عزیز و اقارب سے تاحال ملاقات نہیں ہو سکی۔
اس پر اٹارنی جنرل نے احمد عمر شیخ سے ساس، چچا اور چچی کی ملاقات کروانے کی بھی یقین دہانی کروا دی۔
عدالت میں بتایا گیا کہ ملزمان کو رات کو ان کے کمروں میں بند کر دیا جاتا ہے جس پر ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل پنجاب فیصل چوہدری نے کہا کہ یہ کہنا درست نہیں کہ کمروں میں بند کر دیا جاتا ہے، کمروں کو نہیں بلکہ فلیٹ کو لاک کر دیا جاتا ہے۔
احمد عمر شیخ سمیت چار افراد پر الزام تھا کہ انہوں نے امریکی صحافی ڈینئل پرل کو اغوا کے بعد قتل کیا تھا۔ تاہم رواں سال جنوری میں سپریم کورٹ نے ان تمام ملزمان کو قتل کے الزام سے عدم ثبوت پر بری قرار دے دیا تھا۔ جب کہ احمد عمر شیخ کو اغوا کے الزام میں سات سال کی قید پہلے ہی بھگت لینے پر رہا کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔
کیس کا پس منظر
امریکہ کے اخبار 'دی وال اسٹریٹ جرنل'سے وابستہ صحافی ڈینئل پرل کو کراچی میں جنوری 2002 میں اغوا کیا گیا تھا جن کی لاش مئی 2002 میں برآمد ہوئی تھی۔
اس کیس میں پولیس نے چار ملزمان کو گرفتار کیا تھا۔ انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے ان میں سے تین ملزمان فہد نسیم، شیخ عادل اور سلمان ثاقب کو عمر قید کی سزا سنائی تھی جب کہ مرکزی ملزم احمد عمر سعید شیخ کو قتل اور اغوا کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔
چاروں ملزمان نے سندھ ہائی کورٹ میں سزا کے خلاف اپیل دائر کی تھی۔ جب کہ استغاثہ کی جانب سے مجرموں کی سزاؤں میں اضافے کی درخواست دائر کی گئی تھی۔
تاہم اس کیس میں اپیل پر فیصلہ آنے میں 18 برس کا عرصہ لگ گیا کیوں کہ ملزمان کے وکلا نہ ہونے کی وجہ سے اپیلوں کی سماعت تقریباً 10 برس تک بغیر کارروائی کے ملتوی ہوتی رہی۔
سندھ ہائی کورٹ نے چار فروری 2020 کو 18 سال بعد اپیل پر فیصلہ سنایا تھا جس میں عدالت نے مقدمے میں گرفتار تین ملزمان کو بری جب کہ مرکزی ملزم کی سزائے موت کو سات سال قید میں تبدیل کرنے کا حکم دیا تھا۔
ملزم احمد عمر سعید شیخ 18 برس جیل میں رہے، تاہم سپریم کورٹ کے حکم پر اُنہیں سرکاری ریسٹ ہاؤس منتقل کرنے اور اہلِ خانہ سے ملنے کی اجازت دی گئی۔
سپریم کورٹ نے بھی اس کیس میں ملزمان کی رہائی کا فیصلہ دیا اور حکومت کی طرف سے پیش کردہ شواہد کو ناکافی قرار دیا ہے۔ اس کیس میں حکومت کی طرف سے ملزمان کی رہائی رکوانے کے لیے دائر کردہ درخواستیں زیرِ سماعت ہیں۔