سپریم کورٹ آف پاکستان نے ڈینئل پرل قتل کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے جس کے مطابق استغاثہ شواہد کے ساتھ قتل ثابت کرنے میں ناکام رہا۔
عدالت کا تفصیلی فیصلے میں کہنا تھا کہ ہتھکڑی لگا ملزم اعتراف جرم کرے بھی تو اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ قتل کی پیش کی گئی ویڈیو میں ملزمان کی شناخت نہیں ہو سکی۔
تفصیلی فیصلہ دو ایک کی اکثریت سے سنایا گیا ہے۔
سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں اس کیس کا فیصلہ 28 جنوری کو سنایا تھا اور اب اس کیس کا 95 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کردیا گیا ہے۔
جسٹس مشیر عالم اور جسٹس طارق مسعود نے ملزمان کی رہائی کا فیصلہ سنایا تاہم جسٹس یحییٰ آفریدی نے اختلافی نوٹ لکھا اور مرکزی ملزم احمد عمر شیخ کی درخواست مسترد کی۔
انہوں نے ملزم ثاقب اور عادل کے لیے ہائی کورٹ سے بریت کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے کسی اور کیس میں مطلوب نہ ہونے پر انہیں فوری رہا کرنے کا حکم دیا۔ جب کہ احمد عمر شیخ اور فہد نسیم پر اغوا اور دہشت گردی کی دفعات کو تسلیم کیا اور دونوں ملزمان کو قتل کے الزام سے بری کیا ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے دیے گئے فیصلے میں تفتیش کاروں کی سنگین غلطیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔
عدالت کا تفصیلی فیصلے میں مزید کہنا تھا کہ ڈینئل پرل کے اہل خانہ کی وجہ سے تفتیش میں خامیاں سامنے آئیں۔ ڈینئل پرل کی اہلیہ نے قتل کی دھمکیوں والی ای میلز کو چھپائے رکھا۔ شوہر کی جان خطرے میں تھی اور اہلیہ 12 روز خاموش رہی۔ ایف آئی آر میں ای میلز کا ذکر کیا اور نہ ہی شاملِ تفتیش ہوئیں۔
گواہان کے بیانات میں تضاد
جسٹس سردار طارق محمود کے تحریر کردہ فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ استغاثہ کا کیس گواہ آصف محفوظ فاروقی اور عامر افضل کی طرف سے دیے گئے بیانات تھے۔ جن کا کہنا تھا کہ قتل کی سازش ہوٹل اکبر انٹرنیشنل کے کمرہ نمبر 411 میں 11 جنوری 2002 میں تیار ہوئی۔ ڈینئل پرل پیر مبارک شاہ جیلانی سے ملاقات کرنا چاہتا تھا اور اس مقصد کے لیے صحافی آصف فاروقی نے انہیں ملانے کا کہا تھا۔ بعد ازاں عارف نامی شخص نے ڈینئل پرل کو بشیر نامی شخص سے ملوایا جو استغاثہ کے مطابق احمد عمر شیخ تھا۔
فیصلے کے مطابق ہوٹل اکبر انٹرنیشنل میں تین گھنٹے تک ملاقات ہوئی لیکن استغاثہ کی طرف سے عارف نام کے شخص کے بارے میں کوئی معلومات نہیں کہ اس کی ڈینئل پرل سے کس نے ملاقات کرائی تھی۔ گواہ عارف نامی شخص کو جانتا نہیں اور کمرہ نمبر 411 میں ہونے والی ملاقات میں کسی سازش سے انکار کیا۔ لہذا استغاثہ اپنا یہ نکتہ ثابت کرنے میں ناکام رہا کہ قتل کی سازش ہوٹل اکبر انٹرنیشنل کے کمرہ نمبر 411 میں تیار ہوئی۔
فیصلہ میں کہا گیا کہ گواہ عامر افضل ہوٹل کا میزبان تھا لیکن اس کی جانب سے کمرہ نمبر 411 بک کرنے والے مظفر فاروقی نامی شخص (جس کو بعد میں احمد عمر شیخ بتایا گیا) کا شناختی کارڈ دیا گیا تھا۔ لیکن اس کی کاپی کبھی کیس میں شامل نہیں ہوئی۔ ریکارڈ میں مظفر فاروقی کا شناختی کارڈ نمبر بھی موجود نہیں ہے۔ گواہ عامر نے پولیس کو بیان میں پہلے کمرہ نمبر 417 بتایا اور بعد میں کمرہ نمبر 411 کا کہا۔ گواہ اس معاملے میں مختلف بیان دیتا رہا۔ اس کے علاوہ گواہ نے کبھی بھی تسلیم نہیں کیا کہ وہ مظفر فاروقی کو جانتا ہے۔ گواہ نے ہوٹل کا کوئی کسٹمر رجسٹر پیش نہیں کیا جس میں ہوٹل کے تمام مہمانوں کے آنے جانے، ان کی معلومات اور دیگر ریکارڈ موجود ہو۔
فیصلے میں کہا گیا کہ گواہ عامر افضل نے خود کو ہوٹل کا ریسپشنسٹ بتایا لیکن سوال و جواب کے دوران گواہ کو ہوٹل کا صحیح سے پتا بھی معلوم نہیں تھا۔ لہذا یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ غلط شخص کو بطور ریسپشنسٹ پیش کیا گیا۔ گواہ آصف فاروقی نے بھی کمرہ نمبر 411 میں قتل کی کسی بھی سازش کے الزام کی تردید کی۔
اس کے علاوہ گواہ عامر افضل کبھی بھی مظفر فاروقی کو احمد عمر شیخ کے طور پر شناخت کرنے کے لیے شناخت پریڈ میں شامل نہیں ہوا۔ اس وجہ سے عدالت میں گواہ کی طرف سے ملزم کی شناخت کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔
عدالت کا کہنا تھا کہ احمد عمر شیخ سے ڈینئل پرل کو ملوانے والے شخص عارف کے بارے میں بتایا کہ وہ گرفتار ہوا اور سال 2014 میں اسے رہا کر دیا گیا جس کے بعد اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی۔ تاہم پراسیکیوٹر جنرل نے اس بات کی تصدیق کی کہ ایسی کوئی اپیل کبھی دائر نہیں کی گئی۔
'ڈینئل پرل کی اہلیہ 12 دن تک خاموش رہیں'
فیصلہ میں کہا گیا کہ ایف آئی آر کے مطابق واقعہ 23 جنوری 2002 کو ہوا اور رپورٹ 4 فروری کو 11 بج کر 45 منٹ پر درج کرائی گئی۔ اس سے قبل ڈینئل پرل کی اہلیہ کو 27 جنوری کو ای میل موصول ہوئی جس میں ان کے شوہر کو حراست میں دکھایا گیا تھا۔
ڈینئل پرل کی اہلیہ کو 30 جنوری کو ایک اور ای میل موصول ہوئی جس میں ان کے شوہر کو مطالبات پورے نہ ہونے پر 24 گھنٹوں میں قتل کرنے کی دھمکی دی گئی تھی۔ ڈینئل پرل کی اہلیہ اپنے شوہر کے اغوا، حراست میں ہونے اور قتل کی دھمکی کے باوجود اس معاملے کو پولیس کو رپورٹ نہیں کیا۔ ڈینئل پرل کی اہلیہ میرین پرل اپنے شوہر کے شدید خطرات میں ہونے کے باوجود 12 دن تک خاموش رہیں۔ اس معاملے کی حساسیت کے پیشِ نظر اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
میرین پرل نے اس قدر اہم واقعے کو 4 فروری کو رپورٹ کیا۔ اس قدر تاخیر سے ایف آئی آر اندراج ہونے کے باعث استغاثہ کے پیش کردہ شواہد اور کہانی پر شکوک پیدا ہوئے۔
فیصلہ میں کہا گیا کہ جس وقت ٹیکسی ڈرائیور ناصر عباس ڈینئل پرل کو لے کر گھر کے باہر سے روانہ ہوا۔ اس وقت میرین پرل وہاں موجود تھیں لیکن اس بات کا ایف آئی آر میں کوئی ذکر نہیں ہے۔
گواہ ناصر عباس نے پولیس کے سامنے ریکارڈ بیان میں بتایا کہ وہ ڈینئل پرل کو لے کر ویلج ریسٹورنٹ پہنچا۔ جہاں اس نے کرولا کار سے نکلنے والے ایک شخص سے ہاتھ ملایا اور روانہ ہوگیا۔ یہ بات اس نے 24 جنوری کو ڈینئل پرل کی اہلیہ کو بتائی لیکن ایف آئی آر میں ڈینئل پرل کے کرولا کار میں جانے کے حوالے سے بھی نہیں بتایا گیا۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تمام کہانی 5 فروری کو واقعے کے 13 دن بعد اور مقدمہ کے اندراج کے بعد بنائی گئی۔
اس بات کا کوئی جواز نہیں بتایا گیا کہ میرین پرل نے اپنے شوہر کی نامعلوم ملزمان کی حراست میں موجودگی اور قتل کی دھمکی کے باوجود 4 فروری کو 12 دن کی تاخیر سے رپورٹ کیوں درج کرائی۔ میرین پرل کے پاس آخری مرتبہ ڈینئل پرل کے کسی کے ساتھ دیکھے جانے کے حوالے سے معلومات موجود تھیں۔ لیکن انہیں ایف آئی آر میں نہیں بتایا گیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گواہ ناصر عباس کی کہانی تمام تر جھوٹ پر مبنی تھی جو 5 فروری کے بعد بنائی گئی تھی۔
عدالت کا کہنا ہے کہ اس کیس میں میرین پرل اہم گواہ تھیں۔ جنہوں نے گواہ ناصر عباس کی معلومات ایف آئی آر میں درج نہیں کرائی۔ میرین پرل کو دو ای میلز 27 اور 30 جنوری کو موصول ہوئیں۔ بعد میں میرین پرل نے پولیس کو ان ای میلز کے پرنٹ دیے اور مشیر نامہ بھی دیا لیکن اس پر دستخط نہ کیے۔ ایف آئی آر میں ان ای میلز کا بھی کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔ میرین پرل نے وہ لیپ ٹاپ کمپیوٹر بھی کبھی پیش نہیں کیا جس پر انہوں نے یہ ای میلز وصول کی تھیں۔
فیصلہ میں کہا گیا کہ اس کیس کے انکوائری افسر نے میرین پرل سے ملنے کی کوشش کی اور ان کے گھر بھی گیا لیکن ان کے ساتھ کوئی رابطہ نہ ہوسکا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ تفتیشی افسر حمید اللہ میمن کی کوششوں کے باوجود میرین پرل نے تفتیشی ٹیم سے تعاون نہیں کیا۔ صرف میرین پرل کے پاس وہ کمپیوٹر موجود تھا جس کے ذریعے انہیں ای میلز موصول ہوئی تھیں اور اس کمپیوٹر کی مدد سے اس شخص تک پہنچا جا سکتا تھا جس نے انہیں ای میلز بھجوائی تھی۔ میرین پرل استغاثہ کے مؤقف کو درست ثابت کرنے کے لیے تحقیقات میں شامل نہیں ہوئیں۔ انہوں نے یقین دہانی کی تھی کہ وہ ڈاکٹرز کی اجازت سے عدالت کے سامنے پیش ہوں گی اور استغاثہ نے انہیں حمل کے باعث ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ میرین پرل اس کیس کی اہم گواہ تھیں لیکن ان کی طرف سے معاملے کو رپورٹ کرنے میں تاخیر، ای میلز والے کمپیوٹرز کی عدم فراہمی اور تحقیقات میں شامل نہ ہونے سے استغاثہ کی کہانی پر شکوک پیدا ہوئے۔
'ٹیکسی ڈرائیور گواہ ناصر عباس پولیس کا ملازم ہے'
عدالت کا فیصلہ میں کہنا تھا کہ استغاثہ کی طرف سے اغوا کی کہانی دو گواہان کے بیانات کی بنیاد پر تھی جن میں سے ایک ٹیکسی ڈرائیور ناصر عباس اور دوسرا پولیس افسر جمیل یوسف تھا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ گواہ ناصر عباس پولیس کا ہیڈ کانسٹیبل تھا جسے ٹیکسی ڈرائیور بنا کر گواہ بنایا گیا۔ جرح کے دوران جب ناصر عباس سے شہر کی مختلف اہم عمارتوں کے بارے میں سوال کیا گیا تو وہ کسی بھی اہم جگہ کی درست نشاندہی نہیں کر سکا۔ جس کا عمومی طور پر ٹیکسی ڈرائیورز کو لازمی علم ہوتا ہے۔
فیصلے کے مطابق گواہ ناصر عباس کے بیان میں اور بھی کئی تضادات سامنے آئے۔ جن میں اس نے پہلے ڈینئل پرل کو صرف ویلج ریسٹورنٹ کے باہر اتارنے کا بتایا اور بعد میں میرین پرل کو کسی کرولا گاڑی میں سوار شخص کے ساتھ جانے کا بتایا۔ ناصر عباس نے غیر ملکی کا کہا لیکن کبھی ڈینئل پرل کی تصویر کی شناخت اس سے نہیں کرائی گئی۔
فیصلے میں ڈینئل پرل کے اغوا کے روز ان کی پولیس افسر جمیل یوسف کے ساتھ ملاقات کا بھی بتایا گیا کہ جمیل یوسف کے دفتر میں انہیں ایک موبائل فون سے کال آئی۔ جسے ڈینئل پرل نے شام سات بجے ملنے کا کہا، یہ نمبر امتیاز صدیقی نامی شخص کا تھا جس کے ساتھ ڈینئل پرل کی ملاقات طے تھی۔ اس ٹیلی فون نمبر کی شناخت میرین پرل نے بھی کی تھی۔ لہذا اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ڈینئل پرل کی ملاقات پہلے سے طے تھی اور ویلج ریسٹورنٹ کے باہر کرولا گاڑی میں سوار ہوکر اغوا ہونے کی کہانی 5 فروری کو تیار کی گئی تھی۔
ڈینئل پرل کے قتل کا ویڈیو ثبوت کیمرہ ٹرک ہوسکتا ہے
عدالتی فیصلہ میں ڈینئل پرل کے قتل کی ویڈیو کے بارے میں بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں اور گواہ جان مولیگن کا بیان شامل ہے جسے ویڈیو موصول ہوئی تھی۔
فیصلے میں کہا گیا کہ جان مولیگن کو یہ ویڈیو کس نے فراہم کی، اس بارے میں کوئی معلومات موجود نہیں، اس کے ساتھ ساتھ سب سے اہم بات کہ اس ویڈیو کی کوئی فرانزک رپورٹ بھی عدالت میں جمع نہیں کی گئی، اس ویڈیو کی مدد سے کسی ملزم کی شناخت ممکن نہیں ہوسکی۔ ویڈیو میں ایک شخص کا ہاتھ نظر آرہا تھا جو ڈینئل پرل کو قتل کر رہا تھا لیکن اس ہاتھ سے کسی کی شناخت نہ ہو سکی۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ جان مولیگن کو یہ ویڈیو 21 فروری کو موصول ہوئی اور اس وقت تک چاروں مرکزی ملزمان پولیس کی حراست میں موجود تھے۔ جان مولیگن کی طرف سے تفتیشی ٹیم کو ویڈیو کی ایک کاپی فراہم کی گئی۔
عدالت کا کہنا ہے کہ اگر اصل ویڈیو فراہم کی جاتی تو اس کا فرانزک کرایا جاسکتا تھا اور اس ویڈیو کی اصل کاپی جان مولیگن کے پاس موجود تھی اور فرانزک کے بغیر اس ویڈیو کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ ویڈیو میں موجود مواد کیمرہ ٹرک تھی۔ استغاثہ کی طرف سے اس بارے میں کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا گیا کہ اصل ویڈیو کس نے اور کس طرح تیار کی۔ لہذا اس بارے میں شک موجود ہے کہ یہ فلم کسی لیبارٹری یا فلم اسٹوڈیو میں تیار کی گئی ہو۔ اس صورتحال میں اس ویڈیو ثبوت پر انحصار نہیں کیا جاسکتا اور سندھ ہائی کورٹ نے اس بارے میں درست نتائج اخذ کیے۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ مکمل نہیں
عدالت نے ڈینئل پرل کے قتل کے بعد اس کی لاش کی بازیابی اور پوسٹ مارٹم رپورٹ کے حوالے سے بھی غلطیوں کی نشاندہی کی اور کہا کہ اس بارے میں کوئی معلومات کیس میں درج نہیں کہ کس کی نشاندہی اور کس طرح سے لاش برآمد ہوئی۔جس ڈاکٹر نے پوسٹ مارٹم کیا اس کو کبھی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔
عدالت کا کہنا ہے کہ اس بارے میں ڈینئل پرل کے والدین کا شواہد کو نظر انداز کرنے کا بیان درست نہیں، عدالت غیر جانب دار ہوتی ہیں اور عدالتوں کا یہ کام نہیں کہ وہ کسی ایک فریق کی طرف سے کی جانے والی غلطیوں اور کوتاہیوں سے آگاہ کریں۔ لہذا استغاثہ قتل کے حوالے سے اپنے شواہد ثابت کرنے میں ناکام رہی ہے۔
'اعتراف جرم بھی تشدد سے کرایا گیا'
عدالت نے ملزم احمد عمر سعید کی طرف سے اعتراف جرم کے بیان کو بھی مسترد کیا اور کہا کہ استغاثہ کے مطابق ملزم نے چار پولیس افسران کی موجودگی میں تمام جرائم کا اعتراف کیا۔ تاہم انتظامی مجسٹریٹ آج تک کسی عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوا۔ جہاں ملزم نے اعتراف جرم کیا ہو۔
فیصلے کے مطابق ملزم کا ہتھکڑی میں پولیس کے سامنے اعتراف جرم تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔
عدالت کا کہنا ہے اس کیس میں مجسٹریٹ کی طرف سے تحریری طور پر اعترافی بیان کے بارے میں ریمانڈ آرڈر سمیت کوئی دستاویز موجود نہیں اور ٹرائل کے دوران بھی مجسٹریٹ کو بطور گواہ پیش نہیں کیا جس سے استغاثہ کی طرف سے ملزم کے اعترافی بیان کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی۔
ای میل بھجوانے والے ملزمان کی گرفتاری کی تاریخوں میں گڑبڑ
عدالت کی طرف سے کہا گیا ہے کہ ملزمان فہد نسیم اور سلمان ثاقب کی گرفتاری کی تاریخوں کے حوالے سے بھی تنازع پایا جاتا ہے۔ پولیس کے مطابق ملزمان کو 10 اور 11 فروری کی درمیانی رات گرفتار کیا گیا اور ان کے قبضے سے ڈیل کا لیپ ٹاپ، ہارڈ ڈسک اور دیگر سامان برآمد کیا گیا۔ لیکن امریکی سفارت خانے کی طرف سے گواہ رونالڈ جوزف کے بیان سے پولیس کے بیان کی مکمل تردید ہوتی ہے جس نے اپنے بیان میں کہا کہ اسے یہ لیپ ٹاپ 4 فروری کو امریکی سفارت خانے میں ملا جس نے 7 فروری کو اس کمپیوٹر کا معائنہ کرنا شروع کیا۔ لہذا وہ کمپیوٹر جو 4 فروری کو امریکی سفارت خانے میں موجود تھا 11 جنوری کو فہد نسیم سے کیسے برآمد کرایا جاسکتا ہے؟
عدالت نے کہا کہ اس کیس میں استغاثہ نے بعد میں تسلیم کیا کہ ملزمان کو 4 فروری کو حراست میں لیا گیا اور غیر قانونی حراست میں رکھا گیا لیکن اتنے بڑے کیس میں اسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔
احمد عمر شیخ کی گرفتاری کی تاریخ پر شکوک نے اضافہ کیا
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ملزم احمد عمر شیخ کی 13 فروری کو گرفتار کیے جانا بھی غلط بتایا جا رہا ہے کیوں کہ اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں اور ٹی وی فوٹیجز کے مطابق احمد عمر شیخ نے 6 فروری کو لاہور میں خود کو قانون کے حوالے کیا تھا لیکن اس کی گرفتاری دستاویزات میں 13 فروری کو ظاہر کی گئی۔ اس کے علاوہ ایک گواہ جان مولیگن نے بھی اپنے بیان میں تسلیم کیا کہ اس نے سی آئی ڈی کی حراست میں 11 یا 12 فروری کو چاروں ملزمان کو دیکھا تھا لہذا اس صورت میں پولیس کے تفتیشی افسر کا احمد عمر شیخ کو 13 فروری کو گرفتار کرنے کا بیان جھوٹا ثابت ہوتا ہے۔
استغاثہ نے عمر کی لاہور سے گرفتاری اور پی آئی اے کی پرواز سے کراچی لائے جانے کی تردید نہیں کی۔ پولیس کی اس بات پر بھی یقین نہیں کیا جا سکتا کہ ایک شخص جو پولیس کو مطلوب ہو رات کے وقت ایئرپورٹ کے قریب گھومتا ہوا پکڑا جائے اور اس کے پاس اپنے گناہ کے تمام ثبوت ای میلز وغیرہ میں بھی موجود ہوں۔
عدالت کا کہنا ہے کہ ملزمان کی تحویل غیرقانونی ہونے اور امریکی گواہان کی طرف سے ملزمان کے حاصل کردہ شواہد حاصل ہونے کی تاریخوں کی وجہ سے ملزمان کے خلاف پیش کردہ ثبوت اپنی اہمیت کھو چکے ہیں۔
عدالت نے ملزمان فہد نسیم اور سلمان ثاقب کے بیانات گرفتاری کے 18 دن بعد ریکارڈ ہونے پر بھی سوال اٹھایا اور کہا کہ اس قدر تاخیر سے بیان ریکارڈ ہونے سے ان کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ ایک ملزم کی طرف سے مجسٹریٹ کے سامنے اعترافی بیان کے لیے تشدد کرنے کی بیان کے بعد اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ ملزمان کے اعترافی بیانات پولیس کے دباؤ کی وجہ سے تھے، لہذا ان اعترافی بیانات کو بھی مسترد کیا جاتا ہے۔
عدالت نے ملزم فہد نسیم کا ایک جملہ بھی فیصلہ میں لکھا جس میں اس نے مجسٹریٹ کے سامنے کہا کہ “میں اپنے بچاؤ کی خاطر یہ بیان دیتا ہوں” اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اس نے پولیس کے دباؤ کی وجہ سے اعترافی بیان دیا۔
عدالت نے مجسٹریٹ کے عدالت میں دیے گئے بیان کا حوالہ بھی دیا جس میں کہا گیا تھا کہ ملزمان کے بیانات رضاکارانہ نہ تھے۔
اغوا کاروں کے کمپیوٹرز امریکی سفارت خانے میں کب گئے؟
عدالت نے اپنے فیصلہ میں فہد نسیم کے لیپ ٹاپ کمپیوٹر کی برآمدگی اور اسے امریکی سفارت خانے کے حوالے کرنے کے بارے میں بھی سوال اٹھائے ہیں۔ امریکی فرانزک ماہر اور گواہ رونلڈ جوزف کے مطابق وہ 4 فروری کو پاکستان پہنچا جہاں اسے امریکی قونصلیٹ میں لیپ ٹاپ دیا گیا۔ امریکہ سے روانگی سے قبل رونلڈ جوزف کو معلوم تھا کہ وہ ایک لیپ ٹاپ کی جانچ کرنے کے لیے پاکستان جارہے ہیں۔ رونلڈ جوزف 31 جنوری کو امریکہ سے پاکستان کے لیے روانہ ہوئے لہذا انہیں اس کمپیوٹر کے بارے میں 28 یا 29 جنوری کو علم تھا۔
فیصلے کے مطابق یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ استغاثہ کے مطابق دوسری ای میل 30 جنوری کو کی گئی۔ میرین پرل نے پولیس کو ملزمان کی طرف سے آنے والی ای میلز 5 فروری کو دیں جب کہ ملزمان کا لیپ ٹاپ 4 فروری کو قونصلیٹ میں موجود تھا۔ اس کیس میں میرین پرل یا ان کی دوست اثرا نعمانی کا لیپ ٹاپ جس پر انہوں نے یہ ای میلز وصول کی تھیں، کبھی بھی تفتیشی حکام کو نہیں مل سکا۔
عدالت کا کہنا ہے کہ استغاثہ نے جس طرح کیس بنایا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ملزمان کا وہ کمپیوٹر جو استغاثہ نے 11 فروری کو برآمد کرنا بتایا ہے، وہ 4 فروری کو امریکی قونصلیٹ کے اندر موجود تھا۔ امریکی فرانزک ماہر رونلڈ جوزف کا کہنا ہے کہ وہ 15 فروری کو پاکستان سے واپس روانہ ہوگیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس نے چھ دن میں لیپ ٹاپ کا معائنہ کرلیا تھا۔ استغاثہ کی تاریخوں کے مطابق اس نے 18 فروری کو کام مکمل کیا جب کہ 15 فروری کو وہ پاکستان سے روانہ ہوچکا تھا۔ اس صورتحال میں استغاثہ کی طرف سے لیپ ٹاپ کی برآمدگی اور اس سے حاصل ہونے والے تمام ثبوت بھی مشکوک قرار دیے جاتے ہیں۔
عدالت نے ملزمان کی طرف سے تاوان کے لیے لکھے جانے والے خطوط پر بھی شک کا اظہار کیا اور کہا کہ ان خطوط کی تحریر ملزمان کی تحریر سے میچ کرنے والے ماہر کی اس شعبہ میں کوئی صلاحیت یا استعداد نہ تھی۔ تحریر کی شناخت کرنے والا سندھی لٹریچر میں کراچی یونیورسٹی کا پوسٹ گریجویٹ تھا۔
عدالت کا کہنا تھا کہ دوران سماعت استغاثہ کی طرف سے ملزم احمد عمر شیخ پر بھارت میں دہشت گردی کے کیس درج ہونے کا کہا گیا لیکن اس بارے میں کوئی بھی تحریری ثبوت عدالت میں فراہم نہیں کیا گیا۔
'شک کا فائدہ ہمیشہ ملزمان کو جاتا ہے'
فیصلے میں کہا گیا کہ تمام کیس کی سماعت اور تمام پیش کیے گئے ثبوتوں کے جائزہ کے بعد استغاثہ اپنا کیس ثابت کرنے اور ملزمان کو اس جرم کا ذمہ دار ٹھرانے میں ناکام رہا ہے۔
فیصلے کے مطابق تمام پیش کردہ ثبوت قانونی نقائص سے بھرپور تھے۔ کیس میں پیش کردہ تمام ثبوتوں کی تردید گواہان کے بیانات سے ہورہی ہے اور ایک بات صدیوں سے طے ہے کہ شک کا فائدہ ملزمان کو دیا جاتا ہے۔ ہائی کورٹ نے پیش کردہ شواہد پر پیدا ہونے والے شک کا فائدہ درست طور پر ملزمان کو دیا۔ لہذا دفعہ 362 کے تحت احمد عمر سعید کو دی گئی سزا درست نہیں۔ مقتول ڈینئل پرل کے والدین کے وکیل کا کہنا تھا کہ یہ ایک ہائی پروفائل کیس ہے۔ لیکن شک کا فائدہ دینا ہائی پروفائل کیس میں بھی ضروری ہوتا ہے اور اس میں استغاثہ کو غیر ضروری سہولت نہیں دی جاسکتی لہذا تمام ملزمان کو بری کیا جاتا ہے۔
بینچ کے سربراہ جسٹس مشیر عالم نے اس فیصلہ سے اتفاق کیا ہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی کا اختلافی نوٹ
جسٹس یحییٰ آفریدی نے اس فیصلہ میں اختلافی نوٹ لکھا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ استغاثہ ڈینئل پرل کے اغوا کے حوالے سے احمد عمر شیخ اور فہد نسیم پر کیس ثابت کرنے میں کامیاب رہا ہے۔
جسٹس آفریدی کا کہنا تھا کہ احمد عمر شیخ کی شناخت گواہان ناصر عباس اور آصف فاروقی نے کی ہے۔
اس کے علاوہ کراچی میں فہد نسیم کو تاوان کا خط بھجوانے کے لیے بھی احمد عمرشیخ نے ہی کہا تھا۔ فہد نسیم کے آئی پی ایڈریس اور دیگر معلومات کی بنا پر ثابت ہوتا ہے کہ تمام ای میلز ان کے کمپیوٹر سے ہوئی تھیں۔تاہم لیپ ٹاپ کی برآمدگی کی تاریخ اور امریکی فرانزک ماہر گواہ کے بیان سے ان شواہد پر شکوک پیدا ہوتے ہیں۔
احمد عمر شیخ کی گرفتاری کے حوالے سے بھی جسٹس آفریدی نے کہا کہ اس کی گرفتاری 6 فروری کو ہونے کے حوالے سے اطلاعات آئیں کہ اس کے ایک رشتہ دار جو خود بھی جج تھے، ان کی موجودگی میں پولیس کے ڈی آئی جی جاوید نور کو لاہور میں گرفتاری دی تھی۔
جسٹس آفریدی نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ استغاثہ احمد عمر شیخ کے خلاف قتل کا الزام ثابت کرنے میں ناکام رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ قتل کی ویڈیو کا فرانزک نہیں ہوا اور پولیس رپورٹ کے مطابق ڈینئل پرل کو قتل کرنے والا شخص ان چار ملزمان میں سے نہیں ہے۔ اس کے علاوہ احمد عمر شیخ کے خلاف قتل کے اعتراف کے حوالے سے چار پولیس اہلکاروں نے بیان دیا کہ ان کے سامنے ملزم نے اعتراف جرم کیا لیکن جس مجسٹریٹ کے سامنے اعترافی بیان دینے کا دعویٰ کیا گیا، اسے استغاثہ نے اپنا گواہ نہیں بنایا۔
جسٹس آفریدی کا ملزمان پر دہشت گردی کے الزامات اور دفعات کے حوالے سے کہنا ہے کہ ملزمان نے جول عمل کیا وہ کسی نجی لڑائی یا مقصد کے لیے نہیں تھا بلکہ اس کے اثرات پاکستان اور بین الاقوامی سطح پر محسوس کیے گئے اور عالمی سطح پر پاکستان کے بارے میں خوف کا تاثر ابھرا۔ لہذا ملزم احمد عمر شیخ اور فہد نسیم کے خلاف دفعہ 7 اے ٹی اے کا الزام ثابت ہوتا ہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے ملزمان سلمان ثاقب اور شیخ محمد عادل کے خلاف سندھ ہائی کورٹ کی طرف سے بریت کے فیصلہ کو درست قرار دیا۔
جسٹس آفریدی نے اپنے فیصلہ میں احمد عمر شیخ اور فہد نسیم پر اغوا اور دہشت گردی کے کیس کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں دونوں کیسز میں عمر قید کی سزا سنائی ہے۔ جب کہ سندھ حکومت اور ڈینئل پرل کے والدین کی طرف سے سزا میں اضافے کی درخواست کو مسترد کردیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ احمد عمر شیخ کی طرف سے سزا کے خلاف اپیل بھی مسترد کردی ہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی کا یہ اختلافی نوٹ تھا اور دیگر دو ججز جسٹس مشیر عالم اور جسٹس سردار طارق مسعود نے اس کے برخلاف ملزمان کی بریت کا فیصلہ کیا لہذا دو ایک کی اکثریت سے دونوں ججز کا فیصلہ لاگو کیا جائے گا۔
خیال رہے کہ امریکی صحافی ڈینئل پرل کو 2002 میں کراچی میں اغوا کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔
ان کے اغوا کے بعد پولیس نے جن ملزمان کو گرفتار کیا ان کے خلاف دو دہائیوں تک عدالتی کارروائی جاری رہی اور اب سپریم کورٹ نے تمام ملزمان کو رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔
ملزم احمد عمر شیخ کی رہائی کے خلاف درخواستیں سپریم کورٹ میں زیرالتوا ہیں۔ البتہ انہیں کراچی سے لاہور کوٹ لکھپت جیل میں منتقل کردیا گیا ہے۔ جہاں ان کی ان کے اہل خانہ کے ساتھ ملاقات بھی کرائی جارہی ہے۔
ڈینئل پرل کیس کے ملزمان کی رہائی کے فیصلہ پر امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ اور ڈینئل پرل کے اہل خانہ نے تحفظات کا اظہار کیا تھا اور اسے انصاف کے اصولوں کے منافی قرار دیا تھا۔