کراچی میں 2002 میں قتل ہونے والے امریکی صحافی ڈینئل پرل کیس میں ملوث مرکزی ملزم احمد عمر شیخ کو پاکستانی حکام نے لاہور منتقل کر دیا ہے۔
کراچی سینٹرل جیل کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ انہیں پیر کی شام بذریعہ جہاز لاہور منتقل کیا گیا جہاں انہیں سخت سیکیورٹی حصار میں ایک گھر میں رکھا جائے گا۔ تاہم اس بارے میں مزید معلومات سامنے نہیں آ سکیں کہ انہیں لاہور میں کہاں رکھا جائے گا۔
احمد عمر شیخ کے والدین کا تعلق لاہور سے ہے اور وہ ان سے ملنے کراچی سینٹرل جیل آتے تھے۔
احمد عمر شیخ سمیت چار افراد پر الزام تھا کہ انہوں نے امریکی صحافی ڈینئل پرل کو اغوا کے بعد قتل کیا تھا۔ تاہم رواں سال جنوری میں سپریم کورٹ نے ان تمام ملزمان کو قتل کے الزام سے عدم ثبوت پر بری قرار دے دیا تھا۔ جب کہ احمد عمر شیخ کو اغوا کے الزام میں سات سال کی قید پہلے ہی بھگت لینے پر رہا کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔
حکومت نے سپریم کورٹ کو مطلع کیا تھا کہ یہ تمام افراد انتہائی خطرناک ہیں اور ان کی رہائی اور آزادانہ نقل و حرکت ملکی سالمیت کے لیے مزید مسائل پیدا کر سکتی ہے۔
سپریم کورٹ میں اٹارنی جنرل بیرسٹر خالد جاوید خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ احمد عمر شیخ عام ملزم نہیں بلکہ دہشت گردوں کا ماسٹر مائنڈ ہے۔ وہ پاکستان کے عوام کے لیے خطرہ ہیں۔
اٹارنی جنرل کا مزید کہنا تھا کہ احمد عمر اور دیگر کو رہا کیا گیا تو وہ غائب ہو جائیں گے۔ زمینی حقائق تقاضہ کرتے ہیں کہ رہائی کے احکامات معطل کیے جائیں۔
عدالت نے اپنے احکامات میں کہا تھا کہ ان چاروں افراد پر مزید کوئی الزام نہ ہونے پر قید میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں۔
سپریم کورٹ نے فروری میں جاری عبوری حکم میں کہا تھا کہ ڈینئل پرل کیس میں بری ہونے والوں کو جیل سے باہر سرکاری ریسٹ ہاؤس میں رکھا جائے۔ اور انہیں اپنے اہل خانہ سے بھی صبح سے شام تک ساتھ رہنے کی اجازت بھی دی گئی۔ تاہم ملزمان انٹرنیٹ اور فون استعمال نہیں کر سکیں گے۔
احمد عمر شیخ کے وکیل ندیم آزر ایڈووکیٹ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ عدالت کا یہ عبوری حکم اب بھی برقرار ہے۔ لیکن احمد عمر شیخ کو ان کے آبائی شہر لاہور منتقل کرنے کا فیصلہ انتظامی نوعیت کا ہے۔ کیوں کہ ایسا کرنے سے احمد عمر شیخ کے اہل خانہ کو کراچی میں ٹھیرانے اور ان کی نقل و حرکت پر اٹھنے والے حکومت کے اضافی اخراجات بھی بچتے ہیں اور لاہور میں جہاں احمد عمر شیخ کو ٹھیرایا گیا ہے وہ سیکیورٹی کے لحاظ سے کافی محفوظ مقام تصور کیا جاتا ہے۔
جبکہ باقی تین افراد فہد نسیم، عادل شیخ اور سلمان ثاقب کے اہلِ خانہ کراچی ہی میں مقیم ہیں۔ اس لیے ان تمام افراد کو سینٹرل جیل کراچی سے منسلک سرکاری مکان ہی میں رکھا گیا ہے۔
کیس کا پس منظر
امریکہ کے اخبار 'وال اسٹریٹ جرنل'سے وابستہ صحافی ڈینئل پرل کو کراچی میں جنوری 2002 میں اغوا کیا گیا تھا جن کی لاش اسی سال مئی 2002 میں برآمد ہوئی تھی۔
اس کیس میں پولیس نے چار ملزمان کو گرفتار کیا تھا۔ انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے ان میں سے تین ملزمان فہد نسیم، شیخ عادل اور سلمان ثاقب کو عمر قید کی سزا سنائی تھی جب کہ مرکزی ملزم احمد عمر سعید شیخ کو قتل اور اغوا کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔
چاروں ملزمان نے سندھ ہائی کورٹ میں سزا کے خلاف اپیل دائر کی تھی۔ جب کہ استغاثہ کی جانب سے مجرموں کی سزاؤں میں اضافے کی درخواست دائر کی گئی تھی۔
تاہم گزشتہ سال سندھ ہائی کورٹ نے چاروں ملزمان کو قتل کے الزام سے بری کر دیا تھا۔ جب کہ احمد عمر شیخ کو ڈینئل پرل کے اغوا کے الزام میں سات سال قید کی سزائی سنائی گئی تھی۔ اور یہ سزا پوری کرنے پر انہیں بھی رہا کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔
صوبائی حکومت نے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا جس پر سپریم کورٹ نے رواں سال جنوری میں سندھ ہائی کورٹ کا بریت کا فیصلہ برقرار رکھنے کا حکم دیا تھا۔