افغانستان کے جنوبی شہر قندھار میں اہلِ تشیع کی ایک مسجد میں نمازِ جمعہ میں ہونے والے دھماکے میں کم از کم 33 نمازی ہلاک اور 73 زخمی ہوئے ہیں۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق دھماکے کی زد میں آنے والے کئی زخمی افراد کی حالت نازک بتائی جاتی ہے جب کہ حکام نے اموات کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
افغانستان میں طالبان حکومت کی وزارتِ داخلہ کے ترجمان قاری سعید خوستی کا کہنا ہے کہ دھماکے کے حوالے سے معلومات جمع کی جا رہی ہیں۔
گزشتہ جمعے بھی افغانستان کے شمالی شہر قندوز میں دھماکہ ہوا تھا جس میں لگ بھگ 46 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کی تھی۔
جمعے کو قندھار کی مسجد میں ہونے والے دھماکے کی کئی ویڈیوز اور تصاویر سوشل میڈیا پر زیرِ گردش ہیں۔ صحافیوں اور دیگر افراد کی جانب سے شیئر کی جانے والی ویڈیوز اور تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مسجد کے فرش پر کئی مقامات پر خون موجود ہے جب کہ متاثرہ افراد کو دیگر لوگ وہاں سے منتقل کرنے میں مصروف ہیں۔
خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق مسجد میں موجود عینی شاہدین نے بتایا کہ جمعے کی نماز میں لگ بھگ 500 افراد شریک تھے۔
ایک مقامی صحافی نے ’رائٹرز‘ کو بتایا کہ عینی شاہدین کے مطابق یہ دھماکہ خود کش تھا جس میں ایک حملہ آور نے خود کو مسجد کے دروازے پر دھماکے سے اڑایا جب کہ دو دیگر مسجد کے اندر چلے گئے تھے۔ البتہ ان دعوؤں کی تصدیق نہیں ہو سکی۔
محکمۂ صحت کے ایک اہلکار نے 'رائٹرز' کو بتایا کہ شہر میں قائم میر وائس اسپتال میں 33 ہلاک شدگان اور 73 زخمیوں کو منتقل کیا گیا ہے۔
دھماکے کے بعد طالبان کے اہلکار بھی اس مسجد پہنچے اور اسے گھیرے میں لے لیا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے وہاں موجود لوگوں سے اپیل کی کہ وہ اسپتالوں میں جا کر خون کے عطیات دیں تاکہ زخمیوں کے لیے درکار خون کی ضرورت کو پورا کیا جا سکے۔
دھماکے کے بعد فوری طور پر کسی بھی گروہ کی جانب سے دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی گئی۔
ملک میں یہ دھماکے ایک ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب طالبان کو ملک میں معاشی بد حالی اور انسانی بحران کا سامنا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
افغانستان میں اگست میں طالبان کے کنٹرول کے بعد شدت پسند گروہ داعش نے حملوں میں اضافہ کر دیا ہے تاہم طالبان مسلسل یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ اس تنظیم سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
طالبان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں داعش کا وجود نہیں۔ البتہ کچھ شہری شدت پسند تنظیم کے نظریات سے متاثر ہو سکتے ہیں۔
افغانستان میں اہلِ تشیع اقلیت پر حملوں کے بعد یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس سے مختلف لسانی اور مذہبی فرقوں میں کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔
اس رپورٹ میں مواد خبر رساں اداروں ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ اور ’رائٹرز‘ سے لیا گیا ہے۔