امریکہ میں طبی ماہرین کے ایک غیر جانبدار پینل نے تجویز کیا ہے کہ کرونا وائرس کے مقابلے کے لئے جانسن اینڈ جانسن کی تیار کردہ ویکسین کے استعمال پر عائد پابندی ہٹانے کے فیصلے کو تاحال مزید معلومات میسر ہونے تک موخر کر دیا جائے۔
یاد رہے کہ جانسن اینڈ جانسن کی ویکسین کے استعمال پر منگل کے روز عارضی پابندی لگائی گئی تھی،کیونکہ بعض مریضوں میں خون جمنے کے واقعات رپورٹ کئے گئے تھے۔
یہ فیصلہ امریکہ کے وبائی امراض کے کنٹرول کے ادارے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (سی ڈی سی) کی ویکسن سے متعلق سفارشات دینے والی کمیٹی، ’امیونائیزیشن ایڈوائزری کمیٹی‘ نے بدھ کے روز ایک ایمرجنسی میٹنگ کے دوران کیا۔
یاد رہے کہ منگل کے روز سی ڈی سی اور امریکہ کے ادویات اور خوراک کے انتظامی ادارے، فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) نے خون جمنے کے چھ ایسے واقعات کے بعد ویکسین کے استعمال پر عارضی پابندی عائد کی تھی۔
ان واقعات میں 18 سے 48 برس کی خواتین کو جانسن اینڈ جانسن کی کرونا ویکسین کے 6 سے 13 روز کے اندر سیریبرل وینوس سائینس تھرمبراسس نامی بیماری لاحق ہو گئی تھی جس میں دماغ کے حصوں میں خون جم جاتا ہے۔ ان میں سے ایک خاتون ہلاک ہو گئی ہیں، جب کہ ایک اور خاتون ہسپتال میں زیر علاج ہیں اور ان کی حالت تشویش ناک بتائی جاتی ہے۔
امریکہ میں اب تک 70 لاکھ سے زائد افراد کو جانسن اینڈ جانسن کی کرونا ویکسین لگ چکی ہے۔
یونی ورسٹی آف واشنگٹن کی طبی ماہر ڈاکٹر بیتھ بیل ان ارکان میں سے ایک تھیں جنہوں نے اس بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے سے اتفاق کیا۔ ان کے مطابق خون جمنے کے یہ واقعات شاذ و نادر ہوتےہیں اور انہوں نے اصرار کیا کہ وہ یہ پیغام نہیں دینا چاہتیں کہ ’’اس ویکسین میں بنیادی طور پر کوئی خرابی ہے۔‘‘
دوسری جانب امریکہ میں بے گھر افراد کو بھی ویکسین کی خوراکیں ملنا شروع ہو گئی ہیں۔ اس سے پہلے بے گھر افراد امریکی ریاستوں کی ترجیحی فہرست میں شامل نہیں تھے۔ خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق کئی ریاستوں نے عمر رسیدہ افراد کی ترجیحی فہرستوں میں بھی انہیں شامل نہیں کیا تھا۔
اے پی کے مطابق امریکی حکومت کے پاس اس سلسلے میں بہت تھوڑے اعداد و شمار ہیں کہ بے گھر افراد عالمی وبا کے دوران اس بیماری سے کس تعداد میں متاثر ہوئے۔ لیکن یہ بات واضح ہے کہ بے گھر افراد کے لیے پرہجوم شیلٹرز میں صفائی ستھرائی کے مناسب انتظام کی غیر موجودگی میں رہنے والے ایسے افراد، صحت کے مسائل سے بھی عموماً دوچار ہوتے ہیں، اس لیے ان افراد کے کرونا وائرس سے متاثر ہونے اور طبی پیچیدگیوں کے باعث شدید بیماری یا ہلاکت کا خطرہ کافی زیادہ ہے۔
امریکہ کے بعض شہروں، جیسے بیوسٹن، سان فرانسسکو اور سیاٹل میں بے گھر افراد کے شیلٹرز میں کرونا وائرس کی وبا کے بارے میں اعداد شمار جمع کئے گئے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کمزور طبقات کے علاقوں میں ویکسیی نیشن کی مہم کے ذریعے ہی قومی سطح پر ’ہرڈ امیونٹی‘ حاصل کی جا سکتی ہے جس سے وبا کے پھیلاؤ کو روکا جا سکتا ہے۔
سیاٹل شہر کے وائے ڈبلیو سی اے شیلٹر میں رہائیش پزیر 39 برس کی سنڈی اولیور کو 7 اپریل کو موڈرنا ویکسین کی پہلی خوراک ملی تھی۔ اے پی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میرے لیے یہ بہت اہم تھا کہ میں اپنی اور دوسروں کی صحت کی حفاظت کر سکوں۔‘‘
ایسے ہی 43 برس کی واؤنا تھیبوڈیاکس بھی سیاٹل شہر کے کئی بے گھر افراد کے شیلٹرز میں رہ چکی ہیں۔ آج کل وہ ’ویل‘ نامی ایک شیلٹر ہوم میں رہ رہی ہیں جہاں ایک چرچ کی بیسمنٹ میں ان کے ساتھ 25 مزید خواتین رہائش پزیر ہیں۔ انہیں 5 اپریل کو جانسن اینڈ جانسن کی ویکسین کی خوراک ملی تھی۔ ان کے مطابق انہیں اس بات سے خوشی ہے کہ اب وہ جہاں بھی جاتی ہیں تو انہیں یہ خدشہ نہیں ہوتا کہ وہ اپنے ساتھ کوئی بیماری لے کر جا رہی ہیں۔
بے گھر افراد کو علاج معالجے کی سہولت مہیا کرنے والے ایک ادارے نیشنل ہیلتھ کئیر فار دی ہوم لیس کونسل کے سربراہ بابی واٹس کا کہنا تھا کہ بے گھر افراد میں شدید بیمار ہونے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ ان کے مطابق، مسلسل بے گھری کی وجہ سے ان کی اوسط زندگی عام افراد سے 20 سے 30 برس کم ہو جاتی ہے۔ ان کے مطابق ان افراد کو بہت پہلے ویکسین کی ترجیحی فہرست میں شامل کر لینا چاہئے تھا۔