ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سزائے موت پر پابندی بحال، فوج داری تحقیقات میں جدت اور جیلوں میں اصلاحات متعارف کروائے۔
دس اکتوبر کو سزائے موت کے خلاف عالمی دن کے موقع پر ایچ آر سی پی کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ جیلوں میں اصلاحات کی جائیں تاکہ قیدیوں کے بنیادی حقوق محفوظ ہو سکیں۔
پاکستان میں سرگرم غیر سرکاری تنظیم جسٹس پروجیکٹ پاکستان کے مطابق پاکستان میں اس وقت چار ہزار کے قریب سزائے موت کے قیدی موجود ہیں۔ دنیا بھر میں کرونا کی لہر کے دوران سزائے موت پر عمل درآمد میں کمی آئی ہے اور 2020 اور رواں برس اب تک ایک بھی سزائے موت پر عمل درآمد نہیں ہوا۔
ایچ آر سی پی کا کہنا تھا کہ ریاست کا فریضہ زندگی کو ختم کرنے کے بجائے اس کا تحفظ کرنا ہے جب کہ اس بات کے بھی سائنسی شواہد موجود نہیں ہیں کہ سزائے موت دینے سے جرائم میں کمی آتی ہے۔
البتہ سزائے موت کے حامی بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سزائے موت اسلام کے قانون کے مطابق دی جاتی ہے اور ان کے بقول پاکستان کا آئین کسی غیر اسلامی قانون سازی کی اجازت نہیں دیتا۔
ایچ آر سی پی کا کہنا ہے کہ غیر تسلی بخش عدالتی نظام میں سزائے موت کے اطلاق کی اجازت نہيں دی جانی چاہیے۔ اس وجہ سے نہ صرف غریب اور وسائل سے محروم لوگ پھانسی چڑھنے کے خطرے سے دوچار ہوتے ہیں بلکہ ذہنی طور پر معذور افراد بھی اس کا نشانہ بن سکتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ایچ آر سی پی کی رپورٹس کے مطابق پاکستان میں 2020 کے دوران کسی فرد کو پھانسی نہیں دی گئی جب کہ عدالتوں نے بھی بہت کم کیسز میں سزائے موت سنائی ہے۔
رپورٹس کے مطابق 2019 میں 578 قیدیوں کو سزائے موت سنائی گئی تھی جب کہ 2020 میں یہ تعداد 177 تھی۔
ایچ آر سی پی نے رواں برس فروری میں عدالتِ عظمیٰ کے اس فیصلہ کو خوش آئند قرار دیا تھا جس میں سنگین ذہنی بیماریوں میں مبتلا قیدیوں کی سزائے موت پر عمل درآمد روک دیا گیا تھا۔
'سزائے موت سے جرائم روکنے میں مدد نہیں مل رہی'
ایچ آر سی پی نے مطالبہ کیا کہ ریاست سزائے موت والے جرائم جن میں سے زيادہ تر عالمی قانون کی رُو سے، ‘انتہائی سنگین’ جرائم کی تعریف پر پورا نہیں اترتے ان پر نظرثانی کرے، پاکستان میں ان جرائم کی تعداد 33 ہے۔
ایچ آر سی پی کی حنا جیلانی کہتی ہیں کہ ہم پاکستان میں ایک عرصہ سے سزائے موت کے خلاف کام کر رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کیا جانا چاہیے اور ایسے مجرموں کو بے شک طویل عرصے تک جیل میں رکھا جائے کیوں کہ سزائے موت دینے سے جرائم کے سدِ باب میں مدد نہیں مل رہی۔
فوجی عدالتوں کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں کے بارے میں حنا جیلانی نے کہا کہ ہم کسی بھی متبادل نظام کے خلاف ہیں اور ان کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں کے بارے میں بھی ہمارا مؤقف یہی تھا کہ اس طرح کی دی جانے والی سزائیں کسی طور فائدہ مند ثابت نہیں ہو سکتیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ جیلوں میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ سزائے موت کی سزا ملنے کے بعد الگ سیلز میں رہ رہے ہیں، ان کے سر پر موت کی تلوار لٹک رہی ہوتی ہے جس سے ان کی ذہنی صحت متاثر ہوتی ہے لہذا ان افراد کی سزاؤں کو تبدیل کرنا ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے کریمنل جسٹس سسٹم میں موجود موت کی سزا کے خاتمہ کے لیے ہماری کوشش جاری ہے اور گزشتہ سال اور اس سال اب تک کسی سزا پر عمل درآمد نہیں ہوا۔
جسٹس پروجیکٹ کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کی مختلف جیلوں میں سزائے موت کے قیدیوں کی کل تعداد 3831 ہے جن میں خواتین قیدی 29 ہیں اور باقی مرد ہیں۔
سب سے زیادہ سزائے موت کے قیدی پنجاب کی جیلوں میں ہیں جن میں 23 خواتین اور 2879 مرد ہیں۔
سب سے کم بلوچستان میں ہیں جن میں کوئی خاتون نہیں جب کہ 47 مرد سزائے موت کے قیدی ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
سزائے موت کا خاتمہ اسلامی اُصولوں کی نفی ہے: اظہر صدیق ایڈوکیٹ
سینئر قانون دان اظہر صدیق دعوٰٰی کرتے ہیں کہ کیونکہ پاکستان کے آئین کی بنیاد اسلامی قوانین ہیں، انہیں کسی صورت ختم نہیں کیا جا سکتا۔
اُن کے بقول پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 2 اے اور 227 کے مطابق کوئی بھی قانون اسلام کے خلاف نہیں بنایا جا سکتا۔ مخصوص جرائم پر اگر سزائے موت نہیں دی جاتی اور اسے ختم کیا جاتا ہے تو یہ اسلام کی روح کے خلاف ہو گا۔
وہ اصرار کرتے ہیں کہ سزائے موت ایک ڈیٹرنس کے طور پر بھی استعمال کی جاتی ہے کیونکہ جب ایک شخص کو علم ہو گا کہ اسے عمر قید ملے گی اور وہ اپنی طبعی موت ہی مرے گا تو اسے کوئی جرم کرتے ہوئے موت کا خوف نہیں ہو گا۔ لیکن جرم کے خاتمے کے لیے موت کی سزا کا ڈر ضروری ہے۔
ملٹری کورٹس میں تمام قانونی تقاضے پورے نہیں ہوئے: کرنل انعام الرحیم ایڈوکیٹ
سینئر قانون دان کرنل (ر) انعام الرحیم کہتے ہیں کہ چار برس تک ملٹری کورٹس کی طرف سے دی جانے والی بیشتر سزائیں سپریم کورٹ کی طرف سے حکم امتناع کے باعث رک گئی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ بیشتر کیسز میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے لہذا ان ملزمان کو سزائیں دینا نا انصافی ہو گی۔
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کی طرف سے 2018 میں جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق دہشت گردی کے 546 کیسز فوجی عدالتوں میں لائے گئے۔ ان 546 کیسز میں سے 313 ملزمان کو سزائے موت دی گئی۔
سزا سنائے جانے والے 310 ملزمان میں سے 56 دہشت گردوں کی سزا پر عمل درآمد کرتے ہوئے انہیں سزائے موت دے دی گئی جب کہ 254 مجرمان کی سزاؤں پر اب تک عمل درآمد نہیں ہوا اور ان کے کیسز مختلف عدالتوں میں زیرِ التوا ہیں۔
ملٹری کورٹس سے ملنے والی سزاؤں کے حوالے سے اظہر صدیق کا کہنا تھا کہ یہ عدالتیں دہشت گردوں کے لیے قائم کی گئی تھیں اور ان عدالتوں میں عام لوگوں کا نہیں بلکہ دہشت گردوں کا ٹرائل کیا گیا۔
اُن کے بقول ان دہشت گردوں نے کئی کئی سو لوگوں سے ان کے جینے کا حق چھینا اور یہ عام مجرم نہیں تھے۔
کرنل انعام کا کہنا تھا کہ ملٹری کورٹس میں آنے والے تمام کیسز آرٹیکل 10 اے کے خلاف ہیں کیونکہ ملزمان کو اپنے دفاع کا موقع نہیں دیا گیا۔ انہیں اپنی مرضی کا وکیل کرنے کی اجازت نہیں تھی، ان تمام افراد کے کیسز سول کورٹس میں چلنے چاہئیں۔
انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں ملٹری کورٹس سے ملنے والی سزائیں ہائی کورٹ میں چیلنج ہو سکتی ہیں اور انہیں سپریم کورٹ میں اپیل کا حق بھی دیا جاتا ہے۔ لہذٰا ملٹری کورٹ سے ملنے والی سزاؤں کے لیے ضروری ہے کہ انہیں سول عدالت میں چلایا جائے تاکہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا جا سکے۔
پاکستان فوج کا مؤقف رہا ہے کہ جن مجرمان کو سزائے موت دی گئی ان کے لیے تمام تر قانونی تقاضے پورے کیے گئے اور مختلف اعلیٰ سول عدالتوں میں سماعت کے بعد انہیں الزامات ثابت ہونے اور اپیلیں مسترد ہونے کے بعد سزائیں دی گئیں۔
پاکستان پر عالمی دباؤ
خیال رہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں قتل یا اس نوعیت کے دیگر سنگین نوعیت کے جرائم میں سزائے موت کے بجائے مجرموں کو طویل عرصے تک جیل میں رکھا جاتا ہے۔
پاکستان پر عرصۂ دراز سے سزائے موت ختم کرنے کے لیے عالمی سطح پر دباؤ رہتا ہے۔
پاکستان کو اس وقت یورپی یونین کی طرف سے جی ایس پی پلس اسٹیٹس (یورپی ممالک کے ساتھ تجارت میں مراعات) ملا ہوا ہے اور پاکستان سے بارہا مطالبہ کیا گیا ہے کہ موت کی سزا کا خاتمہ کیا جائے اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں یہ اسٹیٹس واپس لیا جا سکتا ہے۔
ماضی میں پیپلزپارٹی کے دورِ حکومت میں سزائے موت پر غیر اعلانیہ پابندی لگائی گئی تھی اور سانحہ آرمی پبلک اسکول تک یہ پابندی برقرار تھی مگر بعد میں جی ایچ کیو حملہ کیس کے ملزم ڈاکٹر عثمان سمیت کئی افراد کو سزائے موت دی گئی۔ اس پر دنیا کے کئی ممالک کی طرف سے پاکستان پر دباؤ ڈالا گیا لیکن پاکستان نے اس بارے میں سخت مؤقف اختیار کیا اور کئی ملزمان کو سزا دی گئی۔
گزشتہ چند برسوں میں ریپ کے مجرمان کو بھی پھانسی کی سزا دینے کا مطالبہ کیا گیا اور قصور میں ریپ کے بعد قتل ہونے والی زینب کیس کے ملزم عمران کو بھی ٹرائل کےبعد پھانسی کی سزا دی گئی اور اس پر عمل درآمد ہوا۔