بیرون ملکوں میں محنت مزدوری کے ذریعے اپنے خاندان اور عزیزوں کے لیے رقوم وطن بھیجنے والے لاکھوں پاکستانی ملک کی معیشت میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔
لیکن اب جیسے جیسے بیرونی ملکوں میں معیشت پر دباؤ ، امن و امان کے مسائل اور دیگر کئی وجوہات کی بنا پر وہاں کے قوانین سخت تر ہوتے جا رہے ہیں، دیار غیر میں جانے والے محنت کش پاکستانیوں کی وطن واپسی کا سلسلہ بھی تیز ہوتا جا رہا ہے۔
حال ہی میں ملک واپس آنے والے پاکستانیوں سے متعلق وزارت داخلہ نے ایوان بالا میں اعداد وشمار ہیں ، جو قومی معیشت پر نظر رکھنے والوں اور پالیسی سازوں کے لیے بڑے اہم ہیں۔
ان اعداوشمار کے مطابق گذشتہ چھ برسو ں کے دوران بیرون ممالک سے کل 5 لاکھ 44 ہزار 105 پاکستانی بے دخل کردیے گئے۔ رواں سال میں اب تک 87 ہزار 165 پاکستانیوں کو بے دخل کر کے واپس بھیجا جا چکا ہے۔
چھ سال کی اس مدت مدت میں 2015 کا سال سب سے رہا جب ایک لاکھ 16ہزار ایک سو 85 افراد اپنے گھروں کو لوٹے۔ سال 2012 میں یہ تعداد 71ہزار7سو23تھی۔ 2013 میں 79ہزار5سو39,،،سال 2014 میں 78ہزار4سو9 ، 2016 میں ایک لاکھ 11ہزار84، اور سال 2017 کے پہلے چھ ماہ میں 87ہزار ایک سو 65 ہے۔
پاکستانیوں کو بے دخل کرنے والے ممالک میں سعودی عرب سب سے آگے ہے، جہاں سے سن 2012 سے اب تک 2 لاکھ 80 ہزار 52 پاکستانیوں کو واپس بھیجا جا چکا ہے، جس کی ایک بڑی وجہ عالمی منڈی میں تیل کی گرتی ہوئی قیمتیں ہیں جس سے سعودی عرب ترقیاتی پروگرام اور معیشت متاثر ہوئی ہے۔
رواں سال 2017 میں سعودی عرب سے بے دخل پاکستانیوں کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے جہاں جنوری سے تین جون تک 64 ہزار 689 پاکستانی بے دخل کیے گئے۔
دوسرے نمبر پر متحدہ عرب امارات ہے جہاں سے گذشتہ 6 برسوں میں 52ہزار 58 افراد کو ڈی پورٹ کیا گیا۔
تیسرے نمبر پر اومان، چوتھے پر ملائیشیا اور پھر برطانیہ کا نمبر ہے جہاں سے اس مدت میں 13ہزار700 افراد واپس بھیجے گئے۔
امریکہ اس فہرست میں 44ویں نمبر پر ہے جہاں سے چھ برسوں میں ڈی پورٹ ہونے والے پاکستانیوں کی تعداد 7سو74 ہے۔
زائد المیعاد ویزوں کی مد میں بے دخل پاکستانیوں کی تعداد میں بھی ریکارڈ اضافہ ہوا ہے جس میں غیر قانونی سکونت پر سال 2012 سے اب تک ایک لاکھ 93 ہزار 305 پاکستانی بے دخل ہوئے۔
رواں سال زائد المیعاد ویزوں پر غیر قانونی سکونت اختیار کرنے پر جنوری سے30 جون تک 58 ہزار سے زائد پاکستانی ڈی پورٹ کیے گئے۔
اچھے روزگار کی تلاش میں کئی پاکستان انسانی اسمگلروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو ان سے بڑی رقوم لے کر جعلی دستاویزات پر انہیں خطرناک راستوں سے یورپ پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسمگلر سیکیورٹی اہل کاروں کی نظروں سے بچنے کے لیے دشوار گذار اور ہلاکت خیز زمینی اور سمندری راستے اختیار کرتے ہیں، جس میں کئی لوگ اپنی جانیں گنوا بیٹھتے ہیں، لیکن بہتر مستقبل کی کشش کچھ ایسی ہے کہ لوگ اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر یہ سفر اختیار کرتے ہیں۔