متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کا شمار دنیا کے ان ملکوں میں ہوتا ہے جس کی خوراک کا انحصار دیگر ممالک سے درآمدات پر ہے۔ البتہ اب امارات کے صحرا میں ایسا پودا اگایا جا رہا ہے جو کھانے میں استعمال ہو رہا ہے جب کہ ملک کے شدید گرم موسم اور زیرِ زمین نمکین پانی میں بھی نشونما پاتا ہے۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق یو اے ای کے صحراؤں میں اب ایسے کھیت بنائے جا رہے ہیں، جہاں سخت جان پودا ’سلیکورنیا‘ اگایا جا سکے۔
یو اے ای میں یہ پودا نمک کے متبادل کے طور پر برگر اور کھانے کی دیگر اشیا میں پہلے ہی استعمال کیا جا رہا ہے۔
کھانے پینے کی اشیا بنانے والی بعض کمپنیاں بھی سالیکورنیا کو صحت کے لیے مفید قرار دیتی ہیں۔ امارات کی معیشت کا دار ومدار تیل کی برآمد پر ہے اور اس کو لگ بھگ تمام اجناس باہر سے منگوانی پڑتی ہیں۔ ایسے میں سالیکورنیا کی پیداوار کو مستحکم زراعت کی جانب ایک قدم قرار دیا جا رہا ہے۔ اس پودے کی شاخیں رسیلی ہوتی ہیں۔
یو اے ای میں کھانے پینے کی اشیا بنانے والی کمپنی ’گوبل فوڈ انڈسٹریز‘ کی ہیڈ آف مارکیٹنگ ٹینا سائیگزمنڈ اس پودے سلیکورنیا کے حوالے سے بتاتی ہیں کہ کھانے پینے کی اشیا میں اس پودے کے استعمال سے اس میں نمکین ذائقہ تو محسوس کیا جا سکتا ہے البتہ اس میں سوڈیم کی مقدار کم استعمال ہو گی۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کے اور بھی کئی فوائد ہیں۔
گلوبل فوڈ انڈسٹریز ایسے برگرز بناتی ہے جس میں اس پودے کے استعمال سے سوڈیم کی مقدار لگ بھگ 40 فی صد تک کم ہو جاتی ہے۔ اسی وجہ سے کمپنی ان برگرز کو صحت بخش برگر قرار دیتی ہے۔ ان برگرز میں مرغی کا گوشت، گوبھی اور دیگر اشیا ڈالی جاتی ہیں۔
سالیکورنیا شمالی امریکہ، یورپ، جنوبی افریقہ اور جنوبی ایشیا کے بعض حصوں میں پیدا ہوتا ہے۔ اسے یو اے ای کے گرم ترین موسم کے لیے انتہائی موزوں پودا بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ ٹینا کہتی ہیں کہ اس پودے میں اینٹی بیکٹیرئیل اور دیگر خصوصیات بھی ہیں۔
متحدہ عرب امارات کے جی ڈی پی میں زراعت سے پیدا ہونے والی اشیا کا حصہ ایک فی صد سے بھی کم ہے۔ یہاں پر عمومی طور پر درجہ حرارت 50 ڈگری کے قریب رہتا ہے جب کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے سبب اس کی شدت میں اضافے کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
’اے ایف پی‘ کے مطابق یو اے ای میں 2021 میں متعدد علاقوں میں ایسے کھیت بنائے گئے جہاں سالیکورنیا کی کاشت کا تجربہ کیا گیا۔ یہ تجربہ دبئی کے انٹرنیشنل سینٹر فا بائیوسیلین ایگری کلچر (آئی سی بی اے) کی جانب سے کیا گیا تھا۔
آئی سی بی اے کے چیف سائنٹسٹ اگوستو بیسرا لوپیز کہتے ہیں کہ اس انتہائی قیمتی فصل کے حوالے سے تحقیق ابھی جاری ہے۔ ان کے مطابق اس کی فرانس میں فی کلو قیمت لگ بھگ 20 ڈالرز ہے۔
’اے ایف پی‘ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ پہلے اس پودے کے حوالے سے ابتدائی تجربات کیے گئے، اس کے بعد ملک کے آٹھ مختلف کاشت کاروں کے ملک کر اس کی فصل اگائی گئی۔ اب یہ سوال درپیش ہے کہ کس قدر بڑے پیمانے پر اس کو اگایا جائے۔
وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ مستقبل میں سالیکورنیا کھانے پینے کی اشیا میں ایک اہم عنصر کے کے طور پر شامل ہو جائے گی۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر اس کی تجارتی اہمیت کو سمجھا گیا اور اس کی تیاری کے لیے نظام بنایا گیا تو یہ پودا نمک کے متبادل ہو سکتا ہے جب کہ ان مائیکرو نیوٹرنٹس کی جگہ بھی لے سکتا ہے جو اس وقت کھانے بنانے کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں۔
کمپنی ’گوبل فوڈ انڈسٹریز‘ کی ہیڈ آف مارکیٹنگ ٹینا سائیگزمنڈ کہتی ہیں کہ سالیکورنیا اب بھی غیر معروف مصنوعات میں شمار ہوتا ہے۔ جب کہ اس کے صحت کے لیے فوائد سے بھی لوگ واقف نہیں ہیں۔
وہ مزید کہتی ہیں کہ یہ ایک ایسی چیز ہے جس سے بہت زیادہ مالی فائدہ تو حاصل نہیں کیا جا سکتا البتہ اس کے بہتر ہونے کا یقین ہے اس لیے مصنوعات کی تیاری میں اس کا استعمال جاری رکھا جائے گا۔