پاکستان کے معاشی چیلنجز:'آئی ایم ایف سے آسان شرائط پر قرض ملتا نظر نہیں آتا'

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو درپیش معاشی مسائل حل کرنے کے لیے فوری ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے اور معمولی فیصلوں کے بغیر یہ مسائل حل ہونے والے نہیں ہیں۔

وزیرِ اعظم شہباز شریف نے عہدے کا حلف اٹھانے کے چند گھٹنے بعد ملک کی معاشی صورتِ حال کا جائزہ لینے کے لیے اجلاس طلب کیا تھا۔

سرکاری خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان‘ کے مطابق وزیراعظم نے اجلاس میں آئی ایم ایف کی ایکسٹینڈڈ فنڈد فیسیلیٹی کے حوالے سے بات چیت کو فوری طور پر آگے بڑھانے، معیشت کی بحالی، حکومتی بورڈز کے ممبران کی مراعات میں کمی کے لانے کی حکمت عملی بنانے کی ہدایات جاری کی ہیں۔

تفصیلات کے مطابق اجلاس میں وزیرِ اعظم نے پاور اور گیس سیکٹرز کی اسمارٹ میٹرنگ پر منتقلی، ایف بی آر اور دیگر اداروں کی آٹومیشن اور درمیانے اور چھوٹے درجے کے کاروبار کے فروغ کے لیے لائحہ عمل تیار کرنے کی بھی ہدایات دیں۔

معاشی تجزیہ کاروں کے نزدیک پاکستان کو درپیش معاشی چیلنجز میں اس وقت آئی ایم ایف کے نئے پروگرام کا حصول انتہائی ضروری ہے اور ان کے بقو اس کے لیے نئی حکومت کو کئی سخت فیصلے کرنے پڑیں گے۔

کراچی میں مقیم معاشی تجزیہ کار ڈاکٹر عبدالعظیم کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کا اسٹینڈ بائی معاہدہ رواں ماہ ختم ہونے والا ہے اس لیے پاکستان نئے معاہدے کے لیے بات چیت میں تیزی لانا چاہتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کو اگلے مالی سال میں تقریباً 25 ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کرنی ہے جو اس کے موجودہ غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر سے تین گنا زیادہ ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

الیکشن 2024: نئی حکومت کو کن معاشی چیلنجز کا سامنا ہو گا؟

تاہم کئی دیگر مبصرین کی طرح ڈاکٹر عبدالعظیم کا خیال ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرض پروگرام آسان شرائط پر ملتا نظر نہیں آتا بلکہ اس کے لیے حکومت کو جہاں اسٹینڈ بائی پروگرام کامیابی سے مکمل کرنا ہوگا وہیں آئندہ پروگرام کے لیے مزید سخت شرائط پر بھی عمل درآمد کرنا ہوگا۔

معاشی امور کے ماہر ریاض رحمن کے مطابق پاکستان کو بجٹ خسارہ کم کرنے کا چیلنج درکار ہوگا وہیں آئی ایم ایف کی ہدایات کے تحت جاری کھاتوں کا خسارہ بھی بہتر بنانا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر بجٹ خسارہ کم رکھنے کی کوشش کی گئی تو غیر ترقیاتی اخراجات اور حکومت کا سائز چھوٹا کرنے کے بجائے سوشل سیکٹر اور ترقیاتی اخراجات ہی میں کٹوتی کی جائے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ عوام کی روزمرہ زندگی پر یہ اقدامات اثر انداز ہوں گے جب کہ ترقی کی رفتار بھی کم ہو گی۔

ریاض رحمن کا کہنا تھا کہ ٹیکس نیٹ کے اندر نئے شعبوں کو شامل کرنے، حکومتی اداروں میں اصلاحات متعارف کروا کر خسارہ کم کرنے اور وسائل کی بچت کے لیے کفایت شعاری کے اقدامات کرنے کی اب تک کوئی خاص حکمت عملی نظر نہیں آتی۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو فوری طور پر آمدن بڑھانے اور اخراجات کم کرنے کے اقدامات کرنا ہوں گے لیکن اب تک اس کے لیے بنائی گئی حکمتِ عملی صرف اعلانات تک محدود ہے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتِ حال میں بجلی اور گیس کے بلوں میں اضافے کے ساتھ کئی ضروری اشیا پر سیلز ٹیکس کی شرح میں اضافے کی تجاویز بھی سامنے آرہی ہیں اور ان اقدامات سے عام لوگ براہ راست متاثر ہوں گے۔

SEE ALSO: بجلی مزید سات روپے فی یونٹ مہنگی؛ ’عام آدمی کی مشکلات میں اضافہ ہو گا‘

’آئی ایم ایف پروگرام کے لیے امکانات روش ہیں‘

ڈاکٹر عبدالعظیم کے خیال میں پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کا ایک اور پروگرام حاصل کرنے کے امکانات زیادہ روشن نظر آتے ہیں کیوں کہ نگران حکومت چیلنجز کے باوجود اسٹینڈ بائی پروگرام کو ٹریک پر رکھنے میں کامیاب رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے اسٹینڈ بائی پرو گرام اور کرنسی مارکیٹ میں افواہیں پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کی وجہ سے پاکستانی روپیہ گزشتہ چھ ماہ کے دوران کافی حد تک مستحکم رہا۔

انہوں نے کہا کہ نگراں حکومت نے نجکاری کا عمل جاری رکھا ہے اور مہنگائی بڑھنے کی شرح میں کسی حد تک ٹھہراؤ دیکھا گیا ہے۔ اسی طرح کرنٹ اکاؤنٹ میں بہتری دیکھی گئی ہے اور خسارہ سات ماہ میں 71 فی صد سے کم ہوا ہے۔

لیکن دوسری جانب نگراں حکومت کے ناقدین کہتے ہیں گزشتہ سال کے سات ماہ کی نسبت اس مالی سال کے سات ماہ کے دوران ترسیلاتِ زر میں تین فی صد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ ملک میں بیرونی سرمایہ کاری میں مسلسل کمی دیکھی جارہی ہے اور پاکستان کے زرِمبادلہ کے ذخائر میں قابلِ ذکر بہتری بھی دیکھنے میں نہیں آئی۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ ریونیو میں کمی کو مقامی مارکیٹ سے بھاری قرض لے کر پورا کیا جارہا ہے جس سے جاری اخراجات کی رفتار اور خسارے میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

’وعدے پورے کرنا پڑیں گے‘

معروف کاروباری شخصیت زبیر موتی والا نے امید ظاہر کی کہ وزیر اعظم معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں گے جو اس وقت انتہائی نازک مرحلے سے گزر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کاروباری ماحول کو سازگار بنانے کے لیے شہباز شریف حکومت نے متعدد اقدامات پر اتفاق تو کیا تھا لیکن ان میں سے بیش تر پر آج تک عمل درآمد نہیں ہوا۔

SEE ALSO: پاکستان کو ایسے سربراہ کی ضرورت ہے جو حکمت سے کام لے سکے: تجزیہ کار

ان کا کہنا تھا کہ وفاقی سیکرٹریوں کی یقین دہانیوں کے باوجود زیادہ تر مسائل آج تک حل طلب ہیں جب کہ کئی دیگر مسائل بھی وقت گزرنے کے ساتھ بڑھ رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ باالخصوص توانائی کے بڑھتے نرخوں نے صنعتوں اور چھوٹے پیمانے پر کام کرنے والی کمپنیوں (ایس ایم ایز) پر تباہ کن اثرات مرتب کیے ہیں جس پر وزیر اعظم کی مداخلت کی اشد ضرورت ہے۔

انہوں نے وزیرِ اعظم شہباز شریف سے یہ درخواست بھی کی کہ وہ وزیر اعظم بننے کے بعد تاجر برادری کو زیر التوا مسائل کو حل کریں جو کئی وعدوں کے باوجود بھی حل طلب ہیں۔