پی ڈی ایم حکومت کے آٹھ ماہ، کیا کھویا کیا پایا؟

پاکستان میں 13 جماعتوں پر مشتمل اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی مخلوط حکومت قائم ہوئے آٹھ ماہ ہو گئے ہیں۔ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد بننے والی حکومت کو آٹھ ماہ کے دوران معیشت، سیاسی عدم استحکام اور امن و امان اور خارجہ اُمور پر کئی چیلنجز کا سامنا رہا۔

پی ڈی ایم حکومت نے اپنے آٹھ ماہ ایسے وقت میں مکمل کیے ہیں جب ملک میں ٹیکنو کریٹس حکومت لانے کی قیاس آرائیاں جاری ہیں اور وہیں سابق وزیرِ اعظم عمران خان ملک میں فوری انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

وائس آف امریکہ نے موجودہ حکومت کی آٹھ ماہ کی کارکردگی پر مختلف ماہرین سے بات کی ہے اور یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ حکومت میں آکر پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کو فائدہ ہوا یا نقصان؟ اور ان آٹھ ماہ میں ملک کی معیشت اور دیگر معاملات نے کیا رُخ اختیار کیا؟

مسلم لیگ (ن) کے لیے یہ آٹھ ماہ کیسے رہے؟

پاکستان میں جمہوریت اور پارلیمانی اُمور پر کام کرنے والے غیر سرکاری ادارے 'پلڈاٹ' کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ اس عرصے کے دوران کس سیاسی جماعت کا فائدہ ہوا یا نقصان اس کا تعین تو عام انتخابات میں ہی ہو گا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ جو جماعت آئندہ عام انتخابات جیتے گی، اسی سے پتا چل جائے گا کہ عوام نے کس جماعت پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا۔

اُن کے بقول کچھ جماعتیں بالخصوص پاکستان مسلم لیگ (ن) تحریکِ عدم اعتماد سے قبل ملک کی سب سے مقبول جماعت تھی، لیکن اب صورتِ حال بدل چکی ہے۔

احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ اس وقت پی ٹی آئی دفاعی پوزیشن میں تھی، لیکن اب پی ٹی آئی جارحانہ سیاست کر رہی ہے اور ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور امن و امان کی خراب ہوتی صورتِ حال کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت میں کمی آئی ہے۔


اُن کے بقول جب بھی کسی جماعت کو مدت پوری ہونے سے قبل اقتدار سے الگ کیا جاتا ہے تو فطری طور پر عوام اس کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔ لہذٰا اگر ملک میں عام انتخابات ہوتے ہیں تو پی ٹی آئی کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔

سینئر صحافی اور اینکر پرسن حامد میر کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کے علاوہ مخلوط حکومت میں شامل دیگر جماعتوں نے بھی کچھ نہ کچھ کھویا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ عمران خان نے پہلے مبینہ امریکی سازش کا بیانیہ بنایا پھر حکومت مخالف تحریک چلا کر پی ڈی ایم حکومت کو دباؤ میں رکھا۔ لہذٰا عمران خان کو جو مقبولیت ملی، اس کا موجودہ حکومت کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔

حامد میر کہتے ہیں کہ اتحادی حکومت کے لیے اصل مسئلہ معیشت تھی۔ عمران خان نے ان کو سیاسی مسائل میں اُلجھا کر رکھا جس سے یہ حکومت معیشت پر درکار توجہ نہیں دے سکی۔

اُن کے بقول وزیرِ اعظم شہباز شریف مئی میں اسمبلیاں توڑنے پر راضی ہو گئے تھے، لیکن ان کے ساتھ حکومت میں شامل دیگر اتحادی جماعتیں راضی نہیں ہوئیں۔

حامد میر کہتے ہیں کہ پہلے چھ ماہ تو عمران خان نے اتحادی حکومت مشکل وقت دیا، لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ حکومت کو کچھ سکھ کا سانس ملا ہے اور اب مسلم لیگ (ن) اور دیگر اتحادی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ اب حکومت چلانی ہے اور انتخابات مقررہ مدت پر ہی کروانے ہیں۔


مسلم لیگ (ن) کو کیا حاصل ہوا؟

سینئر صحافی اور تجزیہ کار چوہدری غلام حسین کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ ان کے خلاف اربوں روپے کے مقدمات ختم ہو گئے جس کے بعد یہ تازہ دم ہو گئی ہے۔

احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) نے موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے قومی احتساب بیورو (نیب) سے اپنے کیسز ختم کرائے۔ اسی طرح تحریکِ انصاف کی جانب سے متعارف کرائی گئی الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے جیسی ترامیم ختم کیں۔

اُن کے بقول آئندہ چند ہفتوں میں معیشت کی بہتری کے لیے اچھے اقدامات کر لیے گئے تو آئندہ الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) نے پی ٹی آئی کے خلاف جو مہم شروع کر کھی ہے جس میں توشہ خانہ اور دیگر کیسز شامل ہیں اسے بھی مسلم لیگ (ن) آئندہ الیکشن سے قبل کیش کرا سکتی ہے۔

البتہ چوہدری غلام حسین سمجھتے ہیں کہ پی ڈی ایم نے تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے اپنی سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے اور اپنے لیے الیکشن مشکل بنا لیا ہے۔

حامد میر کہتے ہیں کہ اب مسلم لیگ (ن) کے لیے تنِ تنہا الیکشن جیتنا مشکل ہو گا جب کہ پیپلزپارٹی کے لیے بھی ایسی ہی صورتِ حال ہے۔ لہذٰا انہیں عمران خان کی مقبولیت کا مقابلہ کرنے کے لیے انتخابی الائنس بنانا پڑے گا۔

احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کو آئندہ انتخابات میں لیول پلیئنگ فیلڈ ملے گا یا نہیں اس کا فیصلہ تو اسٹیبلشمنٹ ہی کرے گی اور وہی ماضی میں الیکشن کے قواعد طے کرتی رہی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے لیے آئندہ الیکشن کے لیے کیسا ماحول ہو گا، اس کا دارومدار اس کے اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات پر ہو گا۔ تاہم اُن کے بقول اسٹیبلشمنٹ کے لیے بہتر یہی ہے کہ سیاست سے الگ رہنے کا اُنہوں نے جو فیصلہ کیا ہے وہ اس پر قائم رہیں۔

چوہدری غلام حسین کہتے ہیں کہ انتخابات سے قبل تو سیاسی طور پر جوڑ توڑ کیے جا سکتے ہیں لیکن انتخابی نتائج میں ہیرا پھیری کرنا مشکل ہو گا۔

Your browser doesn’t support HTML5

پاکستانی معیشت میں پیسہ نہ ڈالا گیا تو عدم استحکام بڑھے گا، تجزیہ کار

پی ٹی آئی کو فائدہ ہوا یا نقصان؟

حامد میر کہتے ہیں کہ عمران خان نے کچھ عرصہ تو امریکی سازش کا بیانیہ دے کر اپنی مقبولیت کا گراف بلند کیا اور ضمنی الیکشن بھی جیتے۔ لیکن جب سے عمران خان اس بیانیے سے پیچھے ہٹے ہیں، ان کی مقبولیت میں بتدریج کمی آ رہی ہے۔

حامد میر کہتے ہیں کہ عمران خان کے 26 نومبر کو راولپنڈی میں لانگ مارچ کے حالات سب کے سامنے ہیں۔ زیادہ بڑی تعداد میں لوگ باہر نہیں نکلے جس کی وجہ یہ ہے کہ اب عوام بھی سمجھ رہے ہیں کہ عمران خان اپنی باتوں سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔

حامد میر کہتے ہیں کہ اس وقت ملکی معیشت کو کئی طرح کے چیلنجز کے درپیش ہیں، لہذٰا جو جماعت بھی ملک کو درست معاشی ڈگر پر ڈالے گی وہی آئندہ انتخابات میں میدان مارے گی۔