نائجیریا: رہائی پانے میں کامیاب طالبات کی ’اذیت ناک‘ کہانی

اسلحے کے زور پر ہونے والی اغوا کی اس واردات کو ’لفظوں میں بیان کرنا اذیت سے کم نہیں‘: 19 برس کی سائنس کی طالبہ، ساراہ لوان
نائجیریا کے اسکول کی وہ طالبات جنھیں پچھلے ماہ اسلام پسند، بوکو حرام نے اغوا کیا تھا، اور شدت پسند گروہ کے چنگل سے رہائی پانے میں کامیاب ہوئی ہیں، بیتے ہوئے خوفناک لمحات کی روداد بیان کی ہے۔

انیس برس کی سائنس کی طالبہ، ساراہ لوان نے کہا ہے کہ اسلحے کے زور پر ہونے والی اغوا کی اس واردات کو ’لفظوں میں بیان کرنا اذیت سے کم نہیں‘۔

لوان نے اتوار کے روز بتایا کہ اُنھیں زیادہ افسوس اِس بات پر ہے کہ اُن کی ہم جماعت لڑکیوں نے بھاگ نکلنے کی جراٴت نہیں دکھا پائیں؛ اور یہ کہ، اُنھیں پریشان حال والدین کی بپتا سن کر رونا آتا ہے جن کی 276 بچیاں لاپتا تھیں۔

سولہ برس کی ایک اوربچی اُن 53 طالبات میں شامل ہیں جو شدت پسند گروہ کے چنگل سے بھاگ نکلی ہیں۔ اُنھوں نے بتایا کہ اے کے 47 رائفل بردار مسلح افراد نے اُنھیں چوری کی چیزیں پکانے کا حکم صادر کیا تھا، جس بات پر وہ، دو دیگر طالبات کے ہمراہ، موقع پانے پر بھاگ نکلیں۔

اتوار کے روز پوپ فرینسز نے مغوی طالبات کی رہائی کی دعا کی، جب کہ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا ہے کہ نائجیریا اور دنیا بھر کے دیگر خطوں میں ہونے والے اغوا کے یہ واقعات مذہبی ’تشدد اور انتہا پسندی‘ کا ایک حصہ ہے۔

اپنے ایک نشریہ خطاب کے دوران، مسٹر کیمرون نے ایک کتبہ اٹھا رکھا تھا جس میں ’برنگ بیک اوور گرلز‘ کے الفاظ تحریر تھے، جو دنیا بھر میں ہونے والے احتجاج کا حصہ بن چکا ہے۔

کیمرن کے بقول، ’جو بات میں کرنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ یہ صرف نائجیریا کا مسئلہ نہیں ہے۔ ہمارا سابقہ، اِس قسم کی اسلام نواز شدت اور انتہا پسندی سے ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ مسائل پاکستان میں ہیں، ہمیں افریقہ کے دیگر علاقوں اور مشرق وسطیٰ میں بھی ایسے ہی مسائل کا سامنا ہے۔ اور ہمیں کھل کر بات کرنی چاہیئے کہ خود برطانیہ میں بھی یہ مسئلہ درپیش ہے۔ انتہا پسندی کی اب بھی بہت حمایت کی جاتی ہے، جِس کا ہمیں مقابلہ کرنا ہے؛ چاہے یہ بات اسکولوں، کالجوں یا یونیورسٹیوں یا کہیں پرنظر آئے‘۔

امریکہ اور متعدد دیگر ممالک نے مغوی طالبات کی تلاش کے کام میں مدد دینے کے لیے انٹیلی جنس اور فوجی ماہرین پر مبنی ماہرین کو نائجیریا روانہ کیا ہے۔

امریکی وزیر دفاع، چَک ہیگل نے ’اے بی سی ٹیلی ویژن‘ کو بتایا ہے کہ مدد کی فراہمی کے ضمن میں امریکہ ہر ممکن مدد کرے گا، تاہم اُنھوں نے یہ بات تسلیم کی کہ، بقول اُن کے، ’یہ بہت ہی مشکل کام ہے۔ یہ بہت وسیع و عریض ملک ہے‘۔

ہیگل نے کہا کہ نائجیریا فوج بھیجنے کا امریکہ کا کوئی ارادہ نہیں۔