یورپی یونین کے سرکاری ادارہ برائے احتساب نے گزشتہ ماہ بحیرہ روم میں یونان کے قریب تارکینِ وطن کی کشتی ڈوبنے کے اس واقعہ کی تحقیقات کا آغاز کردیا ہے جس میں پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ملکوں سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں تارکین وطن ہلاک ہو گئے تھے۔
یہ تحقیقات یورپی یونین کی سرحدوں پر حفاظتی ذمے داریوں کی حامل ایجنسی فرنٹیکس کے اس حادثے سے نمٹنے میں کردار کو جانچنے پر مرکوز ہوں گی۔
یہ حادثہ تیرہ جون کو اس وقت پیش آیا تھا جب 750 تارکینِ وطن کو لے جانے والی ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی کشتی یونان کے قریب ڈوب گئی۔
ابتدائی اطلاعات کے مطابق لیبیا سے روانہ ہونے والی کشتی کے اس حادثے میں کم از کم 82 ہلاکتوں کی تصدیق کی گئی تھی جبکہ سینکڑوں افراد کو لاپتہ قرار دیا گیا تھا۔
حالیہ برسوں میں تارکین وطن کو لے جانےوالی کشتی کا یہ مہلک ترین حادثہ تھا۔ حادثے میں زندہ بچ جانے والوں کا الزام تھا کہ یونانی کوسٹ گارڈ کی کارروائیاں بہت تاخیر سے شروع ہوئیں اور ہو سکتا ہے کہ یہی تاخیر کشتی کےڈوبنے کا باعث بنی ہو۔
یونانی حکام نے اس دعوے کی سختی سے تردید کی تھی ۔
Your browser doesn’t support HTML5
اب تازہ ترین پیش رفت میں یورپی یونین کی محتسب ایمیلی او ریلی نے کہا ہے کہ ان کی تحقیقات کا مقصد عوام کے لیے یہ واضح کرنا ہے کہ اس حادثے میں ہونے والی اموات کا ذمہ دار کون ہے۔
حالیہ برسوں میں شمالی افریقہ سے انسانی اسمگلرز کے ذریعہ مہاجرین کی بحیرہ روم کے راستے آمد میں اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں کئی جانوں کے زیاں کے واقعات بھی ریکارڈ کیے گئے ہیں۔
خبر رساں ادارے ایسو سی ایٹڈ پریس کے مطابق فرنٹیکس ایجنسی کے یونان جیسے یورپی یونین کے ممبران کے ساتھ گہرے سمندروں میں کام کرنے کی حدود اور اختیار ات غیر واضح ہیں۔
گزشتہ ماہ کے اس بڑے حادثے نے کئی سوالات کو جنم دیا جن میں یہ سوال بھی شامل ہے کہ فرنٹیکس کس حد تک جانوں کے بچانےکے عمل میں شریک ہو سکتی تھی۔
یہ سوال بھی اٹھایا جارہا ہے کہ فرنٹیکس نے یونانی اہلکاروں کو اس حادثے سے آگاہ کرنے کے لیے کیا کچھ کیا اور اس واقعہ کی ذمہ داری کس کی بنتی ہے۔
SEE ALSO: تیونس اور الجیریا کی سرحد کے درمیان 15 تارکین وطن کی ہلاکت
اس حادثے کے بعد یونان کو بین الااقوامی سطح پر کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا کہ اس نے مہاجرین کو بچانے کے لیے مناسب اقدامات نہیں کیے۔جبکہ یونان میں حکام محتسب کی چھان بین سے الگ اپنے طور پر اپنے کوسٹ گارڈز کی ذمے داری کا تعین بھی کر رہے ہیں۔
فرنٹیکس نے کہا ہےکہ تلاش اور بچاؤ کے کام کو مربوط کرنا اس کی ذمے داری نہیں ہے۔یہ بچاؤ کو مربوط کرنے والے قومی مراکز کی ذمے داری ہے۔
ادارے کا کہنا ہے،"اس کے باوجود فرنٹیکس سمندر میں زندگیوں کو بچانا اپنا اہم کام تصور کرتی ہے اور ضروری ہو تو ملکی حکام کو اس میں مکمل مدد فراہم کرتی ہے لیکن ایسا صرف مدد طلب کرنے پر کیا جاتا ہے۔"
SEE ALSO: یونان: تارکینِ وطن کی کشتی ڈوبنے سے قبل کیا ہوا تھا؟ متاثرین اور عہدیداروں کے بیانات میں تضاداس المناک واقعہ نےپاکستان میں لوگوں کو ہلا کر رکھ دیا کیونکہ سینکڑوں پاکستانیوں کی اس کشتی میں سوار ہونے کی خبریں تھیں۔
پاکستانی نوجوانوں کو درپیش چیلنجز اور روزگار کے بہتر مواقع کے فقدان کی وجہ سے قومی قیادت کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ پاکستانی حکام نے صوبہ پنجاب میں موجود انسانی اسمگلنگ میں ملوث افراد کے خلاف کارروائیاں کرکے غیرقانونی دھندے میں ملوث کئی افراد کو گرفتار بھی کیا تھا۔
یونان کا کہنا ہے کہ بدقسمت کشتی پر سوار مہاجرین نے یونان کی امدادی کارروائیوں کے ذریعہ تعاون حاصل کرنے سے انکار کردیا تھا اور اس کی بجائے اٹلی کی جانب سفر جاری رکھنے پر اصرار کیا تھا۔یونانی حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ امداد پر رضامند نہ ہونے والے تارکینِ وطن کو بچانا ایک مشکل کام ہوتا۔
دوسری طرف یورپی یونین کی سرحدوں پر کام کرنے والی ایجنسی فرنٹیکس نے کہا ہے کہ ادارہ احتساب کی طرف سے ہونے والی تحقیقات میں مکمل طور پر تعاون کرے گا۔
(اس خبر میں شامل بیشتر معلومات خبر رساں ادارے اے پی سے لی گئی ہیں)