سال 2020 میں کرونا وبا کے بعد سے دو سال تک اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ہونے والے خطابات اسی وبا سے متعلق تھے۔ لیکن اس کے بعد 2022 میں یوکرین پر روس کا حملہ موضوعِ بحث بنا رہا اور اب رواں برس اجلاس میں عالمی سطح کا کوئی ایک بحران مرکزی موضوع نہیں ہے۔
نیویارک میں اس وقت اقوامِ متحدہ کا 78 واں اجلاس جاری ہے اور عموماً اس اجلاس میں موسمیاتی تبدیلی، غربت اور بڑھتی ہوئی عدم مساوات تقاریر کے مستقل موضوعات ہوتے ہیں۔لیکن اس بار اجلاس کی سائیڈ لائنز میں اہم سفارتی ملاقاتیں ہورہی ہیں۔
مختلف چیلنجز کے اس دور میں جنرل اسمبلی کے رواں برس جاری اجلاس کے لیے عالمی سطح پر باہمی اعتماد اور اتفاق کے قیام کو مرکزی تھیم قرار دیا گیا ہے۔
ماضی کے مسائل اور یوکرین میں جاری جنگ کے علاوہ مغربی افریقہ اور لاطینی امریکہ میں جنم لینے والے نئے سیاسی بحران رواں برس جنرل اسمبلی کے موضوعات میں شامل ہوگئے ہیں۔
گزشتہ برس کے دوران جنگلات میں آتش زدگی، زلزلے، سیلاب، طوفانوں سمیت کئی تباہ کن قدرتی آفات بحث کا موضوع تھیں جن پر رواں برس کے اجلاس میں تشویش کا اظہار بھی کیا جارہا ہے۔
ان اہم موضوعات کے ساتھ ساتھ اس اجلاس کے اور کون سے دل چسپ پہلو ہیں؟ جانیے اس تحریر میں۔
Your browser doesn’t support HTML5
جنرل اسمبلی کے اجلاس کی اہمیت کیا ہے؟
اقوامِ متحدہ کے قیام ہی سے اس عالمی تنظیم کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت پر سوال اٹھتے رہے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے ناقدین اسے ڈیبیٹنگ کلب قرار دیتے ہیں لیکن جنرل اسمبلی کے اجلاس کی اہمیت کا انکار اس لیے بھی ممکن نہیں کیوں کہ اس میں اقوامِ عالم کے نمائندوں کو ایک چھت تلے جمع ہونے اور مختلف موضوعات پر اپنا مؤقف دنیا کے سامنے رکھنے کا موقع ملتا ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا میں امن کی اہمیت اجاگر ہوئی اور اس سلسلے میں جنرل اسمبلی میں دنیا کے ہر خطے کی نمائندگی کی اس روایت کا آغاز بھی اسی دور سے ہوا۔
کون شریک ہے کون نہیں؟
جنرل اسمبلی کے اجلاس میں 145 ممالک کے سربراہان اور نمائندوں کی شرکت متوقع ہے۔ اجلاس سے امریکہ، برازیل، ترکیہ، ایران اور یوکرین کے صدور خطاب کر چکے ہیں جب کہ دیگر خطابات بھی ہونا ہیں۔
یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی کا روس کے حملے کے بعد اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے یہ پہلا خطاب تھا۔ گزشتہ برس جنرل اسمبلی نے قواعد میں رعایت کر کے صدر زیلنسکی کا ریکارڈ شدہ بیان چلانے کی اجازت دی تھی۔
تاہم اس بار اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے چار مستقل ارکان، فرانس، برطانیہ، چین اور روس کے سربراہانِ مملکت جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت نہیں کررہے ہیں۔
SEE ALSO: ایردوان اور نیتن یاہو کی ملاقات، کئی شعبوں میں تعاون پر اتفاقبھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی سمیت دیگر کئی بڑے ممالک کے سربراہانِ مملکت بھی اس اجلاس میں شریک نہیں ہو رہے۔ بھارت نے رواں ماہ جی 20 ممالک کے سربراہی اجلاس کی میزبانی کی تھی۔
پانچ گھنٹے کی تقریر
جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے والوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ تقریر کے لیے دیے گئے 15 منٹ کے دورانیے کی پابندی کریں گے۔ تاہم کم ہی رہنما اس وقت کی پابندی کرتے ہیں۔ گزشتہ برس جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ہونے والی تقاریر کا دورانیہ اوسطاً 19 منٹ تھا۔
جنرل اسمبلی میں سب سے طویل تقریر کیوبا کے سربراہ فیڈل کاسترو نے 1960 میں کی تھی۔ ان کی یہ تقریر 269 منٹ یعنی تقریباً چار گھنٹے 48 منٹ تک جاری رہی۔ اسی طرح 2009 میں لیبیا کے سابق آمر حکمران معمر قذافی نے جنرل اسمبلی کے اجلاس سے 100 منٹ طویل خطاب کیا تھا۔
اس طویل تقریر میں معمر قذافی نے دنیا جہاں کے موضوعات پر بات کی تھی۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کانگو کی تحریکِ آزادی کے رہنما پیٹرس لوممبا، امریکی صدر جان ایف کینیڈی اور شہری حقوق کے رہنما مارٹن لوتھر کنگ کے دہائیوں قبل ہونے والے قتل کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔
انہوں نے اپنی تقریر میں اسرائیل اور فلسطینیوں کے لیے ایک ریاست کا حل اور عالمی تنازعات کے لیے اپنی ’وائٹ بک‘ پر بھی گفتگو کی تھی۔
SEE ALSO: صرف 148 ڈالر میں نیوزی لینڈ کے قریب جزیرےمیں ایک مربع کلومیٹر کی سرپرستی آپ کے نامجواب کا حق
جنرل اسمبلی میں کئی ممالک کے سربراہان اپنی تقاریر میں کسی ملک کے ساتھ اپنے دو طرفہ تنازعات پر بھی اپنا مؤقف پیش کرتے ہیں۔
اس لیے تنازع کے دوسرے فریق کو جواب کا موقع دیا جاتا ہے اور کئی مرتبہ یہ بحث شدت بھی اختیار کرجاتی ہے۔ تاہم تقریر میں اٹھائے گئے نکات پر سربراہِ مملکت خود براہِ راست جواب نہیں دیتے بلکہ اقوامِ متحدہ میں موجود اس ملک کے سفارتی نمائندے یا عملے کے افراد یہ حق استعمال کرتے ہیں۔
گزشتہ برس جنرل اسمبلی کے اجلاس میں 21 بار جواب کے حق کا استعمال کیا گیا تھا۔
ایک کے بجائے دو دن کا وقفہ کیوں؟
عام طور جنرل اسمبلی کا جلاس چھ دن تک جاری رہتا ہے تاہم اس بار روایت کے برخلاف پیر کو شروع ہونے والی کارروائی 26 ستمبر کو ختم ہو گی۔
اقوامِ متحدہ کے ترجمان کے مطابق پیر کو یہودیوں کے تہوار یومِ کپور کی وجہ سے اجلاس میں ایک کے بجائے دو روز کا وقفہ کیا جائے گا۔
برازیل کی باری پہلے کیوں آتی ہے؟
یہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی طے شدہ روایت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب اس اجلاس کا آغاز ہوا تو کوئی ملک نمائندگی میں پہل نہیں کر رہا تھا۔ اس وقت برازیل نے سب سے پہلے تقریر کے لیے خود کو پیش کیا۔ اس کے بعد سے جنرل اسمبلی کے اجلاس سے پہلا خطاب برازیل کے سربراہِ مملکت کا ہوتا ہے۔
SEE ALSO: دنیا میں کہاں کہاں بادشاہت سلامت ہے؟میزبان ملک ہونے کی وجہ سے امریکہ کی دوسری باری ہوتی ہے تاہم گزشتہ برس صدر بائیڈن ملکۂ برطانیہ کی آخری رسومات میں شرکت کی وجہ سے اجلاس میں شرکت کے لیے تاخیر سے پہنچے تھے۔ اس لیے انہوں نے بعد میں خطاب کیا تھا۔
اس کے علاوہ تقاریر میں ترتیب کے لیے دیگر کئی پہلوؤں کی بنیاد پر فیصلہ کیا جاتا ہے۔ یعنی جن ممالک کے سربراہانِ مملکت اجلاس میں شرکت کرتے ہیں انہیں تقریر کے لیے ایسے ممالک پر ترجیح دی جاتی ہے جن کے وزرا یا دیگر عہدے دار نمائندگی کر رہے ہوں۔
اس کے علاوہ مختلف ملک کی اپنی ترجیحات اور علاقائی توازن کے اعتبار سے بھی تقاریر کے لیے باریوں کا تعین کیا جاتا ہے۔
جو ممالک رکن نہ ہوں؟
جنرل اسمبلی سے تمام ممالک کو خطاب کی دعوت دی جاتی ہے تاہم ضروری نہیں کہ ہر رکن ملک ایسا کرے۔
ارکان کے علاوہ اقوامِ متحدہ میں بعض مستقل مبصرین بھی ہیں جنہیں زیادہ تر اجلاسوں اور متعلقہ دستاویز تک رسائی حاصل ہوتی ہے اور ان کے ارکان تقریر بھی کرسکتے ہیں۔
اس سال بھی یورپی یونین، فلسطین اور ویٹی کن (ہولی سی) اقوامِ متحدہ کے مستقل مبصر ہیں۔ گزشتہ برس سب سے طویل تقریر بھی فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کی تھی۔ انہوں نے 45 منٹ تک جنرل اسمبلی سے خطاب کیا تھا۔
اس تحریر کے لیے معلومات خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لی گئی ہیں۔