تیل کی پیداوار اور برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم 'اوپیک' نے عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتوں میں مسلسل کمی کو روکنے کے لیے اپنی پیداوار کم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ماہرین کے مطابق عالمی معاشی حالات کے باعث مسائل میں گھرے ممالک کے لیے یہ فیصلہ ایک بڑا دھچکا ثابت ہو سکتا ہے۔
اس فیصلے سے امریکہ میں بھی تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا جہاں آئندہ ماہ وسط مدتی انتخابات ہونے والے ہیں اور اس کے باعث ماہرین کے مطابق امریکہ پر سیاسی اثرات بھی مرتب ہوں گے۔
بدھ کو اوپیک میں شامل ممالک کے وزرائے توانائی کا اجلاس ویانا میں ہوا تھا جس میں یومیہ 20 لاکھ بیرل پیداوار کم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ کرونا وائرس کے آغاز کے بعد تنظیم میں شامل ممالک کے وزرا کا یہ پہلا روبرو اجلاس تھا۔
امریکہ اور مغربی ممالک نے تنظیم کے اس فیصلے کو کوتاہ نظری قرار دیا ہے جب کہ تنظیم نے اپنے فیصلے کے دفاع میں کہا ہے کہ عالمی معیشت اور تیل کی منڈیوں میں پائی جانے والی غیر یقینی کی کیفیت ختم کرنے کے لیے پیداوار میں کٹوتی کی جارہی ہے۔
امریکہ اور یورپ میں اقتصادی بحران، شرحِ سود میں اضافے اور روس یوکرین جنگ کے باعث توانائی کی رسد و طلب میں پائی جانے والی بے یقینی کے باعث عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں کمی آ رہی تھی۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق عالمی کساد بازاری، امریکہ میں شرحِ سود میں اضافے اور ڈالر کی بڑھتی قدر کے باعث تین ماہ کے دوران خام تیل کی قیمت 120 ڈالر سے 90 ڈالر فی بیرل پر آ گئی تھی۔
اوپیک کے فیصلے کے بعد جمعرات ہی کو عالمی سطح پر عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی فی بیرل قیمتوں میں ایک فی صد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور آنے والے دنوں میں اس کےمزید اوپر جانے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اوپیک کے اس فیصلے سے روس کو فائدہ ہوگا جسے یوکرین پر حملے کے بعد امریکہ اور یورپی ممالک کی جانب سے تیل اور توانائی کی برآمدات پر پابندی کا سامنا ہے۔
SEE ALSO: امریکہ میں شرح سود میں اضافہ: 'پاکستان میں ڈالر کی بڑھتی قیمت روکنا مزید مشکل ہو جائے گا'’کوتاہ نظری پر مبنی فیصلہ‘
امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے پیداوار میں کٹوتی کے اوپیک کے فیصلے کو کوتاہ نظری قرار دیا ہے۔وائٹ ہاؤس کے مطابق صدر کا کہنا تھا کہ جب دنیا یوکرین پر صدر پوٹن کے حملے کے منفی اثرات کا سامنا کررہی ہے اوپیک کا یہ فیصلہ دور اندیشی پر مبنی نہیں ہے۔
ترجمان وائٹ ہاؤس کیرن جین پیری کا کہنا تھا کہ اوپیک نے پیداوار میں کمی کا اعلان کرکے روس کا ساتھ دیا ہے۔
تاہم سعودی عرب کے وزیرِ توانائی عبدالعزیز بن سلمان نے اوپیک کے فیصلے پر واشنگٹن کے ردَ عمل اور روس کو اس کے فوائد سے متعلق سوال کا جواب دینے سےگریز کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ غیرسیاسی ہے اور اس کا تعلق عالمی سطح پر تیل کی پیداوار کے انتظامی پہلو سے ہے۔
پیداوار میں مزید کمی کا امکان
خبر رساں ادارے اے پی کی ایک رپورٹ کے مطابق تیل کی پیداوار میں مزید کمی کا امکان ہے کیوں کہ آئندہ چند ماہ میں روس کی زیادہ تر مصنوعات اور برآمدات پر یورپی ممالک کی لگائی گئی پابندیوں کے اثرات سامنے آنا شروع ہوں گے۔
اس کے علاوہ امریکہ اور جی سیون گروپ میں شامل ترقی یافتہ ممالک روسی تیل کی قیمت کی حد متعین کرنے والے ہیں یعنی اس پر ایک کیپ لگانے کی تیاری کررہے ہیں۔
قیمت کی یہ حد متعین کرنے کا مقصد روس کی تیل سپلائی میں کمی لانا ہے کیوں کہ اس حد کے اندر رہتے ہوئے جب روسی ریٹیلرز تیل کے سودے کم کریں گے تو ان کی فروخت بھی گر جائے گی۔
رواں ہفتے بدھ کو یورپی یونین روسی تیل کی قیمتوں پر یہ حد متعین کرنے پر آمادگی ظاہر کرچکی ہے۔ یہ پابندی ایک ایسے وقت میں لگائی جارہی ہے جب روس نے یورپ کو گیس کی فراہمی کم کرکے ان ممالک کے لیے توانائی کا بحران پیدا کردیا ہے جو یوکرین کی جنگ میں اس کی حمایت کے لیے تیار نہیں ہیں۔
SEE ALSO: اسحاق ڈار کے عہدہ سنبھالتے ہی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بڑی کمی کیسے ممکن ہوئی؟روس پہلے ہی اپنے تیل کی قیمتوں پر لگائے گئے کیپ پر عمل درآمد کرنے والے ممالک کو تیل کی فراہمی روکنے کی دھمکی دے چکا ہے۔
اوپیک کے فیصلے کے مطابق روس کو اپنی پیداوار میں کمی نہیں کرنا پڑے گی۔ وہ پہلے ہی اپنے لیے طے شدہ ہدف سے کم پیداوار کررہا ہے۔ البتہ کم پیداوار سے قیمتوں میں ہونے والے اضافے کا فائدہ اوپیک میں شامل خلیجی ممالک کو ہوگا۔
ماہرین اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ روس پر یوکرین جنگ کی وجہ سے عائد پابندیوں کے باعث چین اور بھارت کو کم قیمتوں پر تیل فروخت کرنا پڑ رہا ہے۔ اس لیے جب امریکہ اور یورپی ممالک کے عائد کردہ پرائس کیپ کے بعد روس تیل کی فراہمی روکے گا تو عالمی منڈیوں میں تیل کی فراہمی مزید کم ہوجائے گی۔ اس کی وجہ سے تیل کی قیمتیں مزید بڑھیں گی۔
روس کو فائدہ کیسے پہنچے گا؟
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق تیل کی منڈیوں کے مبصرین کا کہنا ہے کہ اوپیک کے فیصلے کے بعد سامنے آنے والے ڈیٹا سے یہ بات واضح ہے کہ اس کا فائدہ روس کو ہوگا۔ ڈنمارک کے سیکسو بینک سے وابستہ ماہر اولے ہنسن کا کہنا ہے کہ روس کو اس فیصلے کے نتیجے میں اپنی پیداوار کم نہیں کرنا پڑے گی۔
ان کا کہنا ہے کہ روس پہلے ہی اپنی طے شدہ ہدف کے برابر پیداوار نہیں کررہا ہے لیکن عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اضافے سے اسے فائدہ ہوگا۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عالمی منڈی میں بڑھتی ہوئی قیمتوں اور روس پر عائد پابندیوں کی وجہ سے بھارت اور چین سمیت جو ممالک روس سے تیل خرید رہے تھے عالمی منڈی میں تیل مزید مہنگا ہونے کی وجہ سے روسی تیل پر ان کا انحصار مزید بڑھے گا۔ اس کے ساتھ ہی روس بھی قیمتوں کے عالمی رجحان کی بنیاد پر زیادہ قیمت وصول کرنے کی پوزیشن میں ہوگا۔
اولے ہنسن کہنا ہے کہ روس اس صورتِ حال میں فاتح ہوگا جب کہ عالمی سطح پر صارفین کو نقصان اٹھانا ہوگا جنیں سست روی کے شکار معاشی حالات میں مہنگا ایندھن خریدنا پڑے گا۔
SEE ALSO: معدنی ایندھن کے عوامی استعمال کے لیے پہلا گلوبل ڈیٹا بیس لانچ کر دیا گیاامریکہ کیسے اثر انداز ہوگا
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق رواں برس جون کے بعد سے امریکہ میں تیل کی فی گیلن قیمت 5.02 کی بلند ترین سطح پر پہنچنے کے باعث واپس نیچے آنا شروع ہوگئی تھی۔ تاہم اس میں اب دوبارہ اضافہ شروع ہوگیا ہے اور نومبر میں ہونے والے وسط مدتی انتخابات میں صدر بائیڈن کو اس کے سیاسی اثرات کا سامنا ہوسکتا ہے۔
کرونا وائرس کے بعد پیدا ہونے والے معاشی بحران کے باعث امریکہ کو 40 سال میں بدترین مہنگائی کا سامنا ہے۔
گزشتہ کچھ عرصے میں امریکہ میں تیل کی قیمتیں کم ہونا شروع ہوئی تھیں تاہم گزرے ہفتے میں یہ قیمت اوسط نو سینٹ پھر بڑھ گئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت امریکی گزشتہ برس کے مقابلے میں 65 سینٹ فی گیلن مہنگا تیل خرید رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے اوپیک کے فیصلے کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے بہتر متبادل کی تلاش کا عندیہ دیا ہے۔
عالمی اثرات
ماہرین کے مطابق اوپیک کی جانب سے پیداوار میں کٹوتی کے فیصلے کے بعد بین الاقوامی مارکیٹ میں رواں برس دسمبر تک خام مال کی فی بیرل قیمت 100 ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ اس سے قبل یہ قیمت 89 ڈالر فی بیرل تک رہنے کا اندازہ لگایا گیا تھا۔
مالیاتی مشاورت فراہم کرنے والے ادارے مورگن اسٹینلے کے ماہرین کے مطابق یورپی یونین کی جانب سے روسی تیل پر عائد ہونے والی پابندیوں کے بعد اوپیک کے پیداوار میں کٹوتی کے فیصلے کے اثرات دو چند ہوجائیں گے۔
ان کے مطابق اس فیصلے کے بعد آئندہ برس تیل کی منڈیوں میں خام تیل کی فراہمی میں یومیہ 10 لاکھ بیرل کی کمی آجائے گی۔
SEE ALSO: روس اور اوپیک ممالک کا تیل کی پیداوار میں کمی پر اتفاقان حالات میں جب امریکہ کا مرکزی بینک پہلے ہی شرحِ سود میں اضافے کا عندیہ دے چکا ہے، ڈالر کے مزید مضبوط ہونے کے امکانات واضح ہیں۔ اس طرح امریکہ میں بونڈز پر منافع میں تو اضافہ ہوگا تاہم دنیا بھر میں جاری معاشی سست روی بڑھے گی۔
ایسے حالات میں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا ترقی پذیر ممالک پر گہرا اثر پڑے گا اور ساتھ ہی عالمی سیاست میں بھی بعض تبدیلیاں متوقع ہیں۔
نجی بینکنگ کمپنی جولیئس بائر سے تعلق رکھنے والے ماہر نوربرٹ روکر کا کہنا ہے کہ آنے والوں دنوں میں تیل پیدا کرنے والوں اور اس کے صارفین کے درمیان کشیدگی بڑھے گی۔
ان کے مطابق مغرب کو طلب و رسد کو متواز ن رکھنے کے لیے وینزویلا یا ایران جیسی ناپسندیدہ ریاستوں کو کچھ رعاتیں دینا پڑ سکتی ہیں جب کہ چین کو اپنی تیل کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کئی کشتیوں کا سوار ہونا پڑے گا۔