امریکہ میں کرونا وائرس کے ڈیلٹا ویریئنٹ کے پھیلاؤ کے باعث یونی ورسٹی اور کالجوں کے طلبا کو اپنے تعلیمی اداروں میں ہونے والی کلاسز میں شرکت کے لیے کرونا سے بچاؤ کی ویکسین لگوانے کا ثبوت پیش کرنے کا پابند بنایا جارہا ہے۔
لیکن طلبا، تعلیمی اداروں اور قانون نافذ کرنے والے حکام سے کیے گئے انٹرویوز سے یہ معلوم ہوا ہے کہ تعلیمی اداروں میں ویکسین کارڈ کی شرط کے بعد سے ویکسین لگانے کی مخالفت کرنے والے بعض افراد جعل سازی کا راستہ بھی اختیار کر رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' نے اپنی ایک رپورٹ کے لیے درجنوں طلبا اور اساتذہ کے انٹرویوز کیے ہیں۔ ان کے مطابق یہ بات تشویش کا باعث ہے کہ جعلی ویکسین کارڈ حاصل کرنا آسان ہے۔
رپورٹ کے مطابق انٹرنیٹ پر ویکسین کارڈ کی جعل سازی ایک چھوٹی صنعت بن چکی ہے اور جعل ساز کسی ذاتی یا مذہبی وجہ سے ویکسین نہ لگوانے والوں کو اپنی خدمات فراہم کر رہے ہیں۔
جعلی ویکسین کارڈ کی قیمت 25 سے 200 ڈالر تک
سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹا گرام پر 'ویکسین کارڈز' کے یوزر نیم سے ایک اکاؤنٹ سے 25 ڈالر میں ایک کارڈ بنا کر فروخت کیا جارہا ہے۔ اسی طرح میسیجنگ کی ویب سائٹ 'ٹیلی گرام' پر ایک صارف 200 ڈالر میں ایک جعلی ویکسین کارڈ بنا کر دے رہا ہے۔
ایسی ویب سائٹس اور اکاؤنٹس پر جعلی ویکسین کارڈ حاصل کرنے والوں کی معلومات کے لیے رابطے بڑھتے جارہے ہیں۔
ٹوئٹر پر 70 ہزار فالوورز رکھنے والے ایک صارف نے ٹوئٹ کیا ’میری بیٹی نے کالج میں 50 ڈالر میں دو جعلی کارڈ خریدے ہیں۔ یہ کارڈ چین سے روانہ کیے گئے۔ کیا ویکسین کارڈ کے لیے کوئی لنک فراہم کرسکتا ہے؟‘
Your browser doesn’t support HTML5
امریکہ کے تعلیمی اداروں کی خبریں فراہم کرنے والے اخبار ’دی کرانیکل آف ہائی ایجوکیشن‘ کے مطابق کم ازکم 675 کالج اور یونی ورسٹیزیز میں کرونا ویکسی نیشن کے ثبوت فراہم کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق کئی تعلیمی اداروں میں ویکسی نیشن کی تصدیق کا طریقہ بہت سادہ ہے۔ اس کے لیے صرف اسٹوڈنٹ پورٹل پر کارڈ کی تصویر اپ لوڈ کرنا ہی کافی ہے۔
’تعلیمی اداروں کے لیے ویکسین کارڈ کی تصدیق آسان نہیں‘
رپورٹ کے مطابق بعض تعلیمی ادارے ویکسین کی تصدیق کے لیے اقدامات بھی کر رہے ہیں۔ لیکن یونیورسٹی آف نارتھ کیرولائنا میں گلوبل ہیلتھ پالیسی کے پروفیسر بینجمن میسن مایئر کا کہنا ہے کہ تعلیمی ادارے کیسے ویکسی نیشن کارڈ کی تصدیق کرسکتے ہیں۔
ان کے مطابق دنیا کے دیگر ممالک جہاں الیکٹرانک نظام موجود ہے ان کے برعکس امریکہ میں ویکسی نیشن کے لیے کاغذ کے ایک کارڈ پر انحصار کیا جا رہا ہے۔
مائیر نے گزشتہ ہفتے اس بارے میں ٹوئٹ بھی کیا کہ ان کی کئی طلبا سے بات ہوئی ہے جو جعلی ویکسین کارڈ کی بہ آسانی دستیابی پر فکر مند ہیں اور وہ ایسے ساتھی طلبا کو جانتے ہیں جنہوں نے جعلی کارڈ یونی ورسٹی میں جمع کرائے ہیں۔
SEE ALSO: کیا امریکہ میں ویکسین لینے والوں کی تعداد کا تعلق معالجین پر عدم اعتماد سے ہے؟البتہ یونیورسٹی آف کیرولائنا کا کہنا ہے کہ انہیں کسی طالب علم کے جعلی کارڈ جمع کرانے کے شواہد نہیں ملے اور تاحال ایسی اطلاعات محض سنی سنائی باتیں ثابت ہوئی ہیں۔
یونی ورسٹی کے دیگر اساتذہ اور عملے کے افراد بھی کرونا ویکسین کے کارڈز کی مبینہ جعل سازی پر تشویش کا اظہار کرچکے ہیں۔
یونی ورسٹی آف نارتھ کیرولائنا سے وابستہ محقق ریبیکا ولیمز کی رائے ہے کہ قومی سطح پر ویکسین پاسپورٹ ایپ بہت ضروری ہے۔ یہ ایپ ان اداروں اور کمپنیوں کے لیے ہونی چاہیے جنہیں ویکسین کے کارڈ کی تصدیق درکار ہو۔
’اے پی‘ کے مطابق متعدد طلبا نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ وہ ویکسین کارڈ کی جعل سازی سے متعلق کوششوں سے آگاہ ہیں۔
تعلیمی اداروں کے بعض حکام اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ویکسین کارڈ کی تصدیق کے لیے فول پروف نظام بنانا نا ممکن ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
کیلی فورنیا اسٹیٹ یونیورسٹی کے چانسلر آفس کے ترجمان مائیکل یولین کیمپ کا کہنا ہے کہ جب کسی بھی چیز کے لیے تصدیق نامے ضروری کیے جائیں تو انفرادی سطح پر دستاویز کی جعل سازی کے امکانات رہتے ہیں۔
یونی ورسٹی آف سدرن کیلی فورنیا کی چیف ہیلتھ آفیسر اور امریکن کالج ہیلتھ ایسوسی ایشن کی کرونا پر ٹاسک فورس کی رکن ڈاکٹر سارا وان اورمین کا کہنا ہے کہ پوری دنیا سے کالج کیمپسز میں ہزاروں طلبا آ رہے ہیں۔ اس لیے تعلیمی اداروں میں کرونا کا پھیلاؤ روکنا ایک بڑا چیلنج ہے۔
لیکن ان کا کہنا ہے کہ ایسی صورت میں اگر بعض طلبا ویکسی نیشن سے متعلق جعل سازی کرتے بھی ہیں تو اس کا اثر محدود ہوگا۔
ان کا کہنا ہے کہ ایسا کرنے والے طلبا کی تعداد بہت کم ہوگی جو ہماری کمیونٹی کی سطح پر اچھی امیونٹی حاصل کرنے کی صلاحیت پر زیادہ اثر انداز نہیں ہوں گی۔
جرم اور سزا
رواں برس مارچ میں کرونا وائرس ویکسی نیشن کارڈ کی جعل سازی سے متعلق بڑھتے ہوئے تحفظات کی وجہ سے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف بی آئی) اور امریکی محکمۂ صحت و انسانی خدمات (ایچ ایچ ایس) کو ایک مشترکہ بیان جاری کرنا پڑا۔
اس بیان میں عوام پر زور دیا گیا کہ جعلی کارڈ نہ بنائیں اور نہ ہی خریدیں۔
امریکہ میں بیماریوں کی روک تھام کے ذمے دار ادارے سینٹر فور ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (سی ڈی سی) جیسے کسی بھی سرکاری ادارے کی مہر کا غیر قانونی استعمال وفاقی قانون کے مطابق جرم ہے اور اس میں زیادہ سے زیادہ جرمانے اور پانچ برس تک قید کی سزا ہوسکتی ہے۔
اپریل میں امریکہ کی 47 ریاستوں کے اٹارنی جنرلز نے ٹوئٹر، شاپیفائی اور ای بے کی ویب سائٹ کے سی ای اوز کو ایک مشترکہ خط لکھا تھا۔ اس خط میں ان کمپنیوں سے جعلی ویکسین کارڈ کی فروخت کے لنکس یا اشتہارات ہٹانے کے لیے کہا گیا تھا۔
کئی ویب سائٹس جعلی کارڈ سے متعلق کی ورڈز کو بلیک لسٹ کرچکی ہیں لیکن تاحال میسجنگ ایپلی کیشنز، چیٹ فورمز اور ڈارک ویب پر جعلی کارڈ کی خرید و فروخت ہو رہی ہے۔
کاؤنٹرفیٹ، جمی بلیک مارکیٹ اور بائے ایکسپریس ڈاکیومنٹس پر کووڈ-19 ویکسین کارڈ، سرٹیفکیٹس اور پاسپورٹ برائے فروخت ہیں جن کی قیمت 400 یورو تک ہے۔
جعل سازی کا سراغ لگانے والے سوفٹ ویئر ’فیک پوسٹ‘ کے بانی سی ای او سعود خلیفہ کا کہنا ہے کہ یہ جعل سازی ہماری ناک کے نیچے ہورہی ہے اور اگر کوئی چاہے تو اسے تلاش کرسکتا ہے۔
ویکسین کارڈ کی جعل سازی کا پہلا کیس
امریکہ کے محکمۂ انصاف نے گزشتہ ماہ کرونا ویکسی نیشن کارڈ کی جعل سازی کے پہلے معاملے میں کارروائی کی تھی۔ اس کیس میں کیلی فورنیا سے تعلق رکھنے والی 41 سالہ معالج جولی اے مازی کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ملزمہ پر جعل سازی اور صحتِ عامہ سے متعلق جھوٹا بیان دینے کی دفعات لگائی گئی تھیں۔
عدالتی دستاویز کے مطابق ملزمہ نے اپنے کسٹمرز کو ایسے کارڈ فراہم کیے تھے جن پر موڈرنا ویکسین لگانے کی تصدیق کی گئی تھی۔ بعض افراد کو مازی نے خود کارڈ کے مندرجات لکھ کر دیے اور ویکسین کا فرضی ’الاٹ نمبر‘ بھی لکھ کر دیے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اسی طرح مازی نے بعض افراد کو سی ڈی سی کے خالی ویکسی نیشن کارڈ فراہم کیے اور تفصیلات میں اپنا نام لکھ کر ویکسین کا فرضی الاٹ نمبر درج کرنے کا کہا تھا۔
ویکسین کارڈ سیاسی مسئلہ
کالج اور یونی ورسٹی کی کلاس میں شرکت کے لیے ویکسین کارڈ کی شرط بعض ریاستوں میں سیاسی مسئلہ بھی بن چکا ہے۔
اوہائیو، یوٹا، ٹینیسی اور فلوریڈا سمیت کم از کم 13 ریاستوں میں ریاستی قوانین کی وجہ سے سرکاری تعلیمی ادارے ویکسی نیشن کارڈ کی شرط عائد نہیں کر سکتے۔ البتہ انہی ریاستوں کے نجی اداروں کو ایسی پابندیاں لگانے کی اجازت ہے۔
جن ریاستوں میں تعلیمی اداروں پر ویکسین کارڈ کی شرط عائد کرنے سے روکنے کے لیے قانون سازی کی جارہی ہے ان کے مطابق انفرادی حقوق یا آزادیوں سے متعلق تحفظات کو اس کی بنیادی وجہ بتایا جاتا ہے۔
البتہ امریکن کالج ہیلتھ ایسوسی ایشن اور دیگر تعلیمی تنظیموں کے مطابق یونی ورسٹیز میں روزمرہ معمولات چلانے کے لیے ایسی پابندیاں مدد گار ہیں۔