بھارتی نژاد برطانیہ کے شہری جسونت سنگھ سدھو کے لیے وہ دن بھی دیگر عام ایام کی طرح ہی تھا۔ وہ مقامی مارکیٹ میں کپڑوں کے اپنے اسٹال پر کپڑے ٹھیک کررہا تھا۔
اس دوران آنے والے گاہکوں کے ساتھ بات چیت بھی جاری تھی کہ اچانک قریب ہی موجود ایک اور کپڑوں کا اسٹال لگانے والے محمد بشارت ان کے پاس آئے اور ٹی شرٹ کی قیمت کم رکھنے پر اعتراض کیا۔ محمد بشارت کو اس مارکیٹ میں سب بوبی کے نام سے جانتے تھے۔
کم قیمت کے حوالے سے بوبی نے سدھو سے کہا کہ اس قیمت کی وجہ سے مارکیٹ خراب ہورہی ہے۔ اور یوں ٹی شرٹ کی قیمت کے تنازعے پر بات شروع ہوئی، جو چند ہی لمحوں میں تلخی میں بدل گئی۔
اس دوران بوبی نے اچانک اپنی کمر کے پیچھے لگا ہوا پستول نکالا اور 31 سالہ جسونت سنگھ کو گولی مار دی، جس سے اس وہ ہلاک ہو گیا۔
یہ کہانی ہے آج سے لگ بھگ تین دہائیوں قبل 1995 میں برطانیہ میں قتل ہونے والے جسونت سنگھ سدھو کی، جس کا مبینہ قاتل 27 سال کے بعد پاکستان کے شہر راولپنڈی سے گرفتار ہوا ہے۔
ملزم کی گرفتاری کے حوالے سے پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے انسانی اسمگلنگ کے انسداد ’اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکل‘ اسلام آباد زون کے ایڈیشنل ڈائریکٹر شیخ زبیر احمد کہتے ہیں کہ ایف آئی اے نے اس ملزم کو متعدد بار گرفتار کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن اب ملزم کے مخالفین نے قانون کا کام آسان کیا اور اس کی گرفتاری ممکن ہوسکی۔
ملزم محمد بشارت عرف بوبی نے پاکستان آ کر نیا نام ضمیر علی ولد محمد اسلم اختیار کر لیا تھا اور وہ کئی برس سے پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے میرپور میں مقیم تھے۔
بوبی نے جب مبینہ جرم کیا تھا اس وقت ان کی عمر 22 برس تھی۔ برطانیہ کے علاقے بلیک ووڈ میں قیام کے دوران ان کا نام لڑائی جھگڑوں اور گینگ بنا کر گھومنے کے لیےلیا جاتا تھا۔ اس قتل کے بعد وہ بلیک ووڈ سے ٹیکسی کے ذریعےنیوپورٹ فرار ہوگئے تھے۔
برطانیہ کی پولیس نے قتل کے فوری بعد تحقیقات کا آغاز کر دیا تھا۔ عینی شاہدین کی فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر پولیس نے نیوپورٹ کا علاقہ چھان مارا لیکن اس وقت ٹریکنگ کی جدید سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے بوبی گرفتار نہ ہو سکے۔مسلسل کوشش کے باوجود پولیس نے تحقیقات کا دائرہ وسیع کیا اور بوبی کے پاکستان میں آبائی علاقے میرپور میں تلاش شروع کی لیکن بوبی کہیں نہ مل سکا۔
دوسری جانب محمد بشارت عرف بوبی نے کچھ عرصہ نیو پورٹ میں ایک دوست کے گھر گزارا۔ بعد ازاں اسی دوست کا پاسپورٹ استعمال کرتے ہوئے وہ فرانس پہنچ گئے۔
فرانس میں تقریباً ایک سال تک رہنے کے بعد بوبی جعلی پاسپورٹ پر پاکستان آئے اور یہاں اپنے بھائی محمد اسلم کا نام ولدیت میں لکھوا کر ضمیر علی کے نام سے نیا شناختی کارڈ بنوا لیا اور اسی شناختی کارڈ پر پاکستان میں کاروبار کرنے لگا۔
بوبی نے، جن کا نیا نام اب ضمیر علی تھا، راولپنڈی میں ایک ریکروٹنگ ایجنسی بنائی اور لوگوں کو بیرون ملک بھیجنا شروع کر دیا۔ اس دوران وہ اپنا پرانا کاروبار یعنی کپڑے کی فروخت کا بھی کام کرتے رہے۔بوبی نے پاکستان میں شادی کی اور اب وہ دو بچوں کے والد بھی ہیں۔
برطانیہ میں اداروں کی جانب سے بوبی کی تلاش کا سلسلہ جاری رہا اور پولیس پر ان کی گرفتاری کے لیے دباؤ بڑھتا رہا۔ اس دوران برطانیہ میں موجود مختلف لوگوں سے پولیس نے رابطہ کیا۔ اس دوران ایک ’نامعلوم شخص‘ کی طرف سے پولیس کو معلومات فراہم کی گئیں، جن میں محمد بشارت عرف بوبی کی میر پور اور راولپنڈی میں موجودگی کے حوالے سے بتایا گیا۔
برطانیہ کی پولیس نے پاکستان میں برطانوی ہائی کمیشن کی مدد سے اس بارے میں تحقیقات کیں اور مختلف شواہد جمع کیے، جن کی مدد سے اس بات کی تصدیق ہو گئی کہ محمد بشارت عرف بوبی پاکستان میں موجود ہیں۔
بعد ازاں برطانوی ہائی کمیشن نے راولپنڈی کی عدالت میں ان کی گرفتاری اور برطانیہ منتقلی کے لیے کیس دائر کیا۔ عدالت نے محمد بشارت کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے۔
عدالت کے احکامات پر ایف آئی اے نے محمد بشارت عرف بوبی کو گرفتار کرنے کی کارروائی شروع کی۔
ایف آئی اے کےاینٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکل اسلام آباد زون کے ایڈیشنل ڈائریکٹر شیخ زبیر احمد کہتے ہیں کہ ایف آئی اے نے ملزم کی گرفتاری کے لیے کئی بار چھاپے مارے، لیکن وہ ہر بار فرار ہونے میں کامیاب ہو جاتا تھا۔
SEE ALSO: بیرون ملک پاکستانی کارکنوں کے مسائل کا سبب کیا ہے؟ملزم کی گرفتاری میں معاونت کے حوالے سے ایف آئی اے کے اعلیٰ افسر کا کہنا تھا کہ گرفتاری کے لیے ہیومن انٹیلی جنس کا استعمال کیا گیا۔ علاقہ میں موجود محمد بشارت عرف بوبی کے مخالفین کی مدد حاصل کی گئی۔
واضح رہے کہ ایف آئی اے کو ملزم کی گرفتاری میں کئی ماہ کا وقت لگا۔کئی ماہ کی کوششوں کے بعد ملزم محمد بشارت کی راولپنڈی میں موجودگی کی تصدیق ہوئی۔ ان اطلاعات کی تصدیق پر ایف آئی اے نے کارروائی کرتے ہوئے ان کو گرفتار کیا۔
حکام کا دعویٰ ہے کہ ملزم نے ابتدائی تحقیقات میں برطانیہ میں قتل کا جرم قبول کیا ہے۔ تا ہم اس دعوے کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان میں محمد بشارت عرف بوبی کے خلاف جعلی شناختی کارڈ بنوانے کی کارروائی کی جاسکتی ہے لیکن حکام نے تاحال یہ نہیں بتایا کہ اس حوالے سے کوئی مقدمہ درج کیا گیا ہے۔بوبی کو عدالتی وارنٹ پر گرفتاری کے بعد اڈیالہ جیل منتقل کیا جا چکا ہے۔
ایف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ برطانوی ہائی کمیشن اور پاکستان کے مختلف اداروں کی مدد سے ملزم کے کاغذات کی تیاری کا کام جاری ہے جس کے بعد اسے برطانیہ منتقل کیا جائے گا۔
برطانیہ میں قتل یا سنگین جرائم کا ارتکاب کرنے کے بعد پاکستان بھاگ کر آ جانے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ کئی مرتبہ برطانیہ میں جرائم کا ارتکاب کرنے والے پاکستانی نژاد برطانوی شہری پاکستان آچکے ہیں۔ اس وقت بھی ایف آئی اے کے پاس متعدد ایسے کیس موجود ہیں اور ان میں مطلوب ملزمان کی تلاش کا سلسلہ جاری ہے۔