'می ٹو مومنٹ' (#MeToo) کو اکتوبر 2019ء میں دو سال مکمل ہو گئے ہیں۔ اس مہم کے ذریعے جنسی ہراسانی اور تشدد کا شکار لاتعداد افراد نے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی تفصیلات سے دنیا کو آگاہ کیا۔
پاکستان کے مشہور فلم میکر جمشید محمود عرف جامی کے حال ہی میں کیے جانے والے انکشافات پر ملکی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا میں ایک بار پھر 'می ٹو' تحریک پر بحث کا آغاز ہوگیا ہے۔
جامی نے گزشتہ ہفتے اپنی سلسلہ وار ٹوئٹس میں 13 سال قبل اپنے ساتھ ہونے والی مبینہ جنسی زیادتی کا ذکر بہت تفصیل سے کیا۔
جامی نے اپنے ٹوئٹس میں لاہور کے 'ایم اے او کالج' کے ان لیکچرار کا بھی ذکر کیا جنہوں نے خود پر لگنے والے ہراسانی کے الزامات غلط ثابت ہونے کے باوجود انتظامیہ کی جانب سے کلیئرنس لیٹر نہ ملنے پر خود کشی کرلی تھی۔
SEE ALSO: طالبہ کے ہراساں کرنے کا الزام، دلبرداشتہ استاد کی خود کشیجامی کا موقف تھا کہ لیکچرار کی خود کشی کو اس طرح پیش کیا جا رہا تھا جس سے 'می ٹو' تحریک متاثر ہو رہی ہے۔
جامی نے الزام لگایا تھا کہ ان کے ساتھ زیادتی کرنے والا شخص پاکستانی میڈیا کی ایک بڑی شخصیت ہے لیکن انہوں نے اپنی ٹوئٹس میں کسی فرد کا نام نہیں لیا تھا۔
کسی فرد کا نام نہ لینے کی وجہ سے جامی کے ٹوئٹس نے قیاس آرائیوں کو جنم دیا تھا جن کا سلسلہ تاحال جاری ہے اور سوشل میڈیا پر لوگ میڈیا کی مختلف شخصیات پر شبہے کا اظہار کر رہے ہیں۔
'نام ظاہر نہ کرنے کہ وجہ سے افواہوں کو ہوا ملی'
مشہور فیشن ڈیزائنر محسن سعید کا کہنا ہے کہ کسی بھی فرد کے لیے اپنی ذاتی زندگی کے ایسے پہلوؤں پر بات کرنے کے لیے بہت بہادری چاہیے جو ماضی میں ان کے لیے اذیت کا باعث بنے ہوں۔
محسن سعید کے بقول اگرچہ یہ جامی کا اپنا فیصلہ ہے کہ وہ کب کسی کا نام منظرِ عام پر لاتے ہیں لیکن تشدد کرنے والے کا نام ظاہر نہ کرنے کہ وجہ سے افواہوں کو ہوا ملی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ماضی قریب میں میشا شفیع نے جنسی ہراسانی کے حوالے سے عوامی سطح پر بات کی لیکن انہوں نے علی ظفر کا نام بھی لیا جس کی وجہ سے علی ظفر خود پر لگائے جانے والے الزامات کا سامنا کرنے پر مجبور ہوئے۔
واضح رہے کہ میشا شفیع نے گزشتہ برس اپریل میں علی ظفر پر ہراسانی کے الزامات کے حوالے سے ایک طویل بیان جاری کیا تھا۔ دونوں کے درمیان ان الزامات پر قانونی جنگ تاحال جاری ہے۔
محسن سعید کا کہنا تھا کہ وہ جامی کے ساتھ کام کر چکے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ جُرات مند بھی ہیں اور اس معاملے پر صاف بات کر سکتے ہیں۔
لیکن کسی شخص کو کس حد تک یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ 'می ٹو' کے پلیٹ فارم پر کسی کا نام لیے بغیر بات کرے؟ اس سوال پر سینئر صحافی عافیہ سلام کہتی ہیں کہ متاثرہ شخص کسی کا نام لینا چاہتا ہے یا نہیں، اس بات کا حق صرف اور صرف اسی فرد کے پاس ہے جو زیادتی کا نشانہ بنا ہو۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے عافیہ سلام نے کہا کہ جب لاہور کے پروفیسر محمد افضل نے خود کشی کی تو 'می ٹو' موومنٹ پر بلا جواز سوال اٹھائے جانے لگے۔ ایسے میں جامی کا اپنی زندگی کے اس تکلیف دہ واقعے کو عوام تک ہہنچانا کوئی معمولی بات نہیں۔
محمد افضل کی خود کشی پر مشہور گلوکار علی ظفر نے بھی ٹوئٹ کیا تھا کہ 'ایم اے او کالج' کے لیکچرار نے ایک جھوٹے الزام پر خود کشی کی ہے۔
'رپورٹنگ کے معیار پر سوال ضرور اٹھتے ہیں'
جامی کی ٹوئٹس سے متعلق میڈیا کی رپورٹنگ کا کردار کیسا تھا، اس پر عافیہ سلام کہتی ہیں کہ میڈیا کا رویہ قابلِ تعریف نہیں رہا۔
ان کے بقول اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں شاید پہلی بار میڈیا کو ایک ایسی رپورٹ لکھنی یا نشر کرنا تھی جس میں ان کے ہی پیشے سے تعلق رکھنے والے کسی فرد کا ذکر ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ واقعہ میڈیا میں کام کرنے والوں کے لیے آئے دن کی بات نہیں۔ اس لیے رپورٹنگ کے معیار اور اس خبر کو برتنے پر کچھ سوال ضرور اٹھتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
'محض شک سے کئی افراد کی زندگی پر منفی اثرات'
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انسانی حقوق کی کارکن تسنیم احمر نے بتایا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جامی نے جس جنسی زیادتی کا ذکر اپنی ٹوئٹس میں کیا، انہیں سامنے لانے کے لیے بہت ہمت چاہیے۔
تسنیم احمر کے بقول کسی شخص کا نام نہ ہونے کی وجہ سے اب کسی طور بھی اس فرد سے سوال جواب نہیں ہو سکتے جو اس ریپ میں ملوث ہے۔
کسی کا نام نہ لیے جانے کے حوالے سے سماجی کارکن نے کہا کہ نام ظاہر نہ کرنے سے اب دو، تین افراد کا ذکر میڈیا کے اندرونی حلقوں میں ہو رہا ہے جس کے نتیجے میں محض شک کی بنیاد پر بہت سے افراد کی زندگی پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا کہنا تھا کہ وہ اس بات کی بھر پور حامی ہیں کہ زیادتی اور ہراسانی کا شکار فرد ہی اس بات کا فیصلہ کر سکتا ہے کہ اس نے کب اور کہاں اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے کا ذکر کرنا ہے۔
تسنیم احمر نے کہا کہ نام لیے بغیر اتنی تفصیلات بتانے سے 'می ٹو' تحریک کو ہی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارا معاشرہ ابھی تک 'می ٹو' کے معاملے کی سنجیدگی کو درست طریقے سے سمجھ نہیں پا رہا۔
ان کے بقول اس کی ایک وجہ سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا کا کردار بھی ہے جہاں الزام لگنے سے لے کر جرم ثابت ہونے تک بات کیے جانے کا باقاعدہ طریقہ وضع نہیں ہو سکا۔
ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں مختاراں مائی اور بہت سے خواتین نے معاشرے کے جبر کے باوجود آگے بڑھ کر اپنے ساتھ زیادتی کرنے والوں کو بے نقاب کیا۔ ایسے میں جامی جیسے مشہور اور کامیاب فلم ساز کا مکمل بات نہ بتانا ان کی مرضی ضرور ہو سکتی ہے لیکن بہتر ہوتا کہ نام بھی سامنے آ جاتا۔
SEE ALSO: اجتماعی زیادتی کی شکار مختاراں مائی 17 سال سے انصاف کی منتظر'می ٹو' تحریک کی پاکستان میں فعالیت پر تسنیم احمر کہتی ہیں کہ بہت سے ایسے معاملات ہیں جن پر عوامی سطح اور میڈیا دونوں جگہ بحث کا آغاز ہونا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مرد و خواتین دونوں میں اس احساس کو پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر جنسی زیادتی یا ہراسانی کا کوئی واقعہ پیش آئے تو اسے جلد سامنے لایا جائے تا کہ اس کے حوالے سے ثبوت نہ صرف قابلِ استعمال ہوں بلکہ 'نیم اینڈ شیم' سے آگے بڑھتے ہوئے مجرمان کو باقاعدہ سزا بھی ہو سکے۔