افغانستان میں حکومت کی معزولی اور طالبان کے قبضے کے بعد کینیڈا کی حکومت نے اعلان کیا کہ وہ 40 ہزار افغان مہاجرین کو اپنے ملک میں آباد کرے گا۔
ان مہاجرین کی ملک میں آبادکاری ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب ملک میں کرونا کی چوتھی لہر اپنے عروج پر ہے۔ افغانستان سے آنے والے مہاجرین کو پانچ ہوٹلوں میں 14 روز کے لیے قرنطینہ میں رکھا گیا، جس کے بعد انہیں کرونا کی ویکسین دی گئی۔ اب ان مہاجرین کی کینیڈا کے مختلف حصوں میں آبادکاری کی جا رہی ہے۔
کینیڈا کے علاقے برٹش کولمبیا کی امیگرنٹ سروسز سوسائٹی میں چیف آپریٹنگ آفیسر کرس فریزن نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ افغان مہاجرین کی امداد انتہائی منفرد تجربہ ہے۔
SEE ALSO: خسرہ کی ویکسین لگانے کے بعد امریکہ میں افغان مہاجرین کو لانے کا سلسلہ بحالانہوں نے بتایا کہ کینیڈا کے فوجی اہلکار افغانستان میں کافی وقت گزار کر آئے ہیں۔ اس لیے ان کا افغانوں اور افغانستان سے ایک ذاتی تعلق ہے۔
کرس فریزن نے کہا کہ بہت سے افغان مہاجرین نے بہت عجلت میں ہجرت کی ہے اور وہ اپنا سب کچھ اپنے ملک میں چھوڑ آئے ہیں۔
اس لیے، ان افراد کی آبادکاری ان کے لیے ایک چیلنج ہے، کیونکہ ان افراد کے ملک میں داخلے سے پہلے کسی قسم کی کاغذی کارروائی مکمل نہیں ہوئی تھی۔
قرنطینہ کے دوران ان افغان مہاجرین کو حکام کی جانب سے لیپ ٹاپ، کمپیوٹر اور ٹیبلٹ کی سہولیات دی گئی تھیں جن کی مدد سے حکام کو ان افراد اور بچوں کو انگریزی پڑھانے کا موقع ملا۔
ان مہاجرین میں عبدل بھی ہیں جن کا خاندان وینکوور میں موجود ہے۔ انہوں نے اپنا پورا نام اس لیے نہیں بتایا کہ ان کے مطابق ان کے رشتے دار ابھی بھی افغانستان میں موجود ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے ایک بھائی امریکہ میں ہیں لیکن وہ بھی کینیڈا آنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ پہلے کینیڈین باشندوں کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔
انہوں نے افغانستان میں 45 برس گزارے ہیں اور وہ کابل میں صحافی کے طور پر کام کرتے تھے۔ وہ افغان اور امریکی میڈیا کے مختلف خبر رساں اداروں کے ساتھ پچھلے بیس برس سے منسلک تھے۔ انہوں نے اپنے کام کے دوران یہ مشاہدہ کیا تھا کہ طالبان کس طرح صحافیوں کے ساتھ برا سلوک کرتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی زندگی خطرے میں ہے۔ ان کے مطابق، نہ صرف ان کی زندگی، بلکہ ان کے خاندان کی زندگی بھی خطرے میں تھی۔
انہوں نے کہا، ’’اس لیے میں بہت کوشش کر رہا تھا کہ میں ملک سے باہر چلا جاؤں، اگرچہ ابھی پچھلی حکومت برسراقتدار تھی۔ میں خود کو خطرے میں محسوس کر رہا تھا۔‘‘
عبدل کے بچوں کی عمریں سکول سے لے کر یونیورسٹی تک کے بچوں کی ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ایک دن ان کی والدہ بھی ہجرت کر کے کینیڈا آ سکیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ اور ان کی اہلیہ انگریزی کی کلاسوں کے علاوہ دوسرے کورسز بھی کرنا چاہتے ہیں، تاکہ وہ جلد ہی کینیڈا کے شہری بن سکیں۔
بقول ان کے، ’’میرا خاندان محفوظ ہے۔ یہ میرے لیے بہت اہم ہے کہ میرے بچوں کا مستقبل بامعنی ہو۔ وہ سکول جائیں اور انشااللہ وہ کالج جا سکیں۔ ان میں سے کچھ افغانستان میں یونی ورسٹی میں پڑھ رہے تھے۔‘‘