افغانستان پر نوے کی دہائی میں طالبان کی حکومت کے دوران ذرائع ابلاغ اور صحافیوں کے لیے حالات سازگار نہیں تھے۔ البتہ، آثار بتاتے ہیں کہ 20 سال طویل افغان جنگ کے دوران طالبان ذرائع ابلاغ کی اہمیت اور استعمال کا فن جان گئے ہیں۔
جنگ کی دو دہائیوں کے دوران طالبان کے کئی رہنما ذرائع ابلاغ سے مسلسل رابطے میں رہے، لیکن ان میں سے بیشتر کبھی منظرِ عام پر نہیں آئے۔ البتہ، رواں ماہ کابل پر قبضے کے بعد طالبان کے ان ترجمانوں نے نہ صرف پریس کانفرنس کی بلکہ یہ اعلان بھی کیا کہ طالبان کے باقی رہنما بھی اب منظرِ عام پر آئیں گے۔
ان دنوں ذبیح اللہ مجاہد طالبان کے مرکزی ترجمان سمجھے جاتے ہیں۔ تاہم، طالبان کے دورِ حکومت اور اس کے بعد کے برسوں میں طالبان کی جانب سے مختلف ترجمان مقرر کیے جاتے رہے۔
امریکہ کے افغانستان پر 2001 میں حملے کے بعد سے طالبان کے بیانات کا اجرا عبد اللطیف اللہ حکیمی کرتے تھے، البتہ ان کو اکتوبر 2005 میں پاکستان کے صوبہ بلوچستان سے گرفتار کر لیا گیا تھا۔
پاکستان میں اس وقت کی مسلم لیگ (ق) کی حکومت کے وزیرِ اطلاعات شیخ رشید احمد نے عبد اللطیف اللہ حکیمی کی گرفتاری کی تصدیق کی تھی۔
طالبان نے 2007 میں افغانستان میں اٹلی کے ایک صحافی کو دو دیگر افراد کے ہمراہ اغوا کیا تھا۔ اس صحافی کی رہائی کے بدلے میں طالبان نے عبد اللطیف اللہ حکیمی سمیت پانچ طالبان رہنماؤں کو رہا کرایا تھا۔
البتہ طالبان نے اطالوی صحافی کے ساتھ اغوا کیے گیے مقامی ڈرائیور اور مترجم کو جاسوس قرار دے کر قتل کر دیا تھا۔
عبد اللطیف اللہ حکیمی کو رہائی کے بعد دوبارہ ترجمانی کی ذمہ داری نہیں دی گئی تھی۔
عبد اللطیف حکیمی کے ساتھ ساتھ دو دیگر افراد حامد آغا اور محمد یاسر بھی طالبان کی خبریں ذرائع ابلاغ تک پہنچاتے تھے۔ البتہ بعد ازاں ان دونوں کی بھی گرفتاری کی اطلاعات سامنے آئی تھیں۔
طالبان اس زمانے میں حملوں کی ذمہ داری یا بیانات فیکس کے ذریعے صحافیوں کو فراہم کرتے تھے جب کہ عبد اللطیف حکیمی بعض اوقات سیٹلائٹ فون کے ذریعے بھی میڈیا کے نمائندوں کو انٹرویو دیتے تھے۔
محمد حنیف
عبد اللطیف اللہ حکیمی کی گرفتاری کے بعد محمد حنیف اور قاری محمد یوسف احمدی کی ذمہ داری تھی کہ طالبان کے بیانات یا عسکری کارروائیوں کی تفصیلات ذرائع ابلاغ تک پہنچائیں۔
محمد حنیف کو جنوری 2007 میں پاکستان سے مبینہ طور پر سرحد عبور کرتے ہوئے افغان فوج نے گرفتار کیا تھا۔ محمد حنیف نے طالبان کے کئی اہم رہنماؤں کے پاکستان میں ہونے کا بھی مبینہ دعویٰ کیا تھا۔ البتہ اسلام آباد نے اس کو مسترد کر دیا تھا۔
محمد حنیف کو طالبان سے رابطے مبینہ طور پر ختم کرنے پر رہا کر دیا گیا تھا۔ تاہم نومبر 2008 میں انہیں افغانستان میں ان کے گھر میں دیگر اہلِ خانہ کے ساتھ قتل کر دیا گیا تھا۔
رپورٹس کے مطابق ان کو قتل کرنے والوں نے افغان آرمی کی وردی پہنی ہوئی تھی۔
ذبیح اللہ مجاہد
محمد حنیف کی گرفتاری کے بعد طالبان نے ذبیح اللہ مجاہد اور قاری محمد یوسف احمدی کو اپنا ترجمان مقرر کیا تھا جو اب تک ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں۔
اگست 2021 کے وسط میں افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد ذبیح اللہ مجاہد اور قاری محمد یوسف احمدی پہلی بار منظر عام پر آئے۔
مئی 2019 میں خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کو ٹیلی فون پر دیے گئے ایک انٹرویو میں ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ ان کو اپنے حقیقی نام استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ وہ فرضی ناموں کا استعمال کر کے اطلاعات پہنچاتے ہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ ان کی تنخواہ 14 ہزار افغانی (لگ بھگ 174 ڈالرز) ماہانہ ہے جب کہ ان کو انٹرنیٹ، موبائل فون اور دیگر امور کے لیے 10 ہزار افغانی (128 ڈالرز) بطور الاؤنس ملتے ہیں۔
قاری محمد یوسف احمدی
قاری محمد یوسف احمدی بھی 2007 سے ذبیح اللہ مجاہد کے ہمراہ طالبان کی ترجمانی پر مامور ہیں۔ ان کے مطابق طالبان کا میڈیا ونگ ایک متحرک اور مؤثر ادارہ ہے اور اسی وجہ سے وہ اپنی شناخت کو مخفی رکھتے ہیں۔
کابل پر قبضے کے بعد ذبیح اللہ مجاہد نے باقاعدہ پریس کانفرنس کی اور طالبان کے مؤقف کو دنیا کے سامنے رکھا۔ اس کے بعد دوسری پریس کانفرنس میں ان کے ہمراہ قاری محمد یوسف احمدی بھی موجود تھے جن کی نشست کے سامنے ان کے نام کی تختی لگی تھی۔ اس تختی پر یہ بھی لکھا ہوا تھا کہ وہ افغانستان کے سرکاری میڈیا سینٹر کے قائم مقام سربراہ بھی ہیں۔
سوشل میڈیا پر موجود اکاؤنٹس پر قاری محمد یوسف احمدی سمیت کئی طالبان رہنماؤں نے اپنی تصاویر لگا دی ہیں جس سے اب ان کی شناخت کی جا سکتی ہے۔
مبصرین کے مطابق طالبان نے جنگ کے دوران ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کا استعمال بہت مؤثر انداز سے کرنا سیکھ لیا ہے۔ افغانستان میں جن مقامات پر وہ قابض ہوتے گئے وہاں پر باقاعدہ طالبان کے رپورٹرز انٹرویوز اور زمینی حالات کی رپورٹنگ کرتے نظر آتے تھے۔ اسی طرح طالبان بعض اوقات مختلف ممالک کے وفود سے ملاقاتوں کے بعد اپنے اعلامیے یا بیانات ان ممالک سے قبل ہی جاری کرتے تھے۔
طالبان ایسی تصاویر شیئر کر رہے ہیں جس سے واضح ہو رہا ہے کہ ان کے سوشل میڈیا کی ٹیم میں بڑی تعداد میں افراد کام کر رہے ہیں۔
طالبان کے مواصلات کے نظام کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ وہ اس پر سالانہ دو کروڑ 50 لاکھ افغانی (لگ بھگ سوا تین لاکھ ڈالرز) خرچ کرتے تھے۔
طالبان افغانستان میں پشتو، دری، فارسی، عربی، اردو سمیت دیگر زبانوں میں کئی مجلے شائع کر رہے ہیں، جب کہ انگریزی سمیت پانچ زبانوں میں ان کی ویب سائٹ پر رپورٹس شائع کی جاتی ہیں۔
سہیل شاہین
امریکہ اور طالبان میں جب امن معاہدہ نہیں ہوا تھا تو طالبان نے ذرائع ابلاغ میں اپنا مؤقف پیش کرنے کے لیے سہیل شاہین کو ترجمان مقرر کیا تھا۔ البتہ، جب افغان حکومت سے مذاکرات کا وقت آیا تو طالبان نے اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈاکٹر محمد نعیم وردک کو ترجمان مقرر کر دیا۔
یہ طالبان کی ترجمانی کرنے والے وہ چہرے ہیں جو کیمروں کے سامنے بھی آتے تھے اور انگریزی، پشتو اور دیگر زبانوں میں میڈیا کو انٹرویوز بھی دیتے تھے۔ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد اس گروہ کے بین الاقوامی امور سے متعلق یہ دونوں ترجمان عالمی ذرائع ابلاغ میں مؤقف پیش کر رہے ہیں۔
سہیل شاہین طالبان کے دور میں سرکاری انگریزی اخبار ’کابل ٹائمز‘ کے چیف ایڈیٹر تھے۔ اس اخبار کی اشاعت 1962 میں شروع ہوئی تھی۔ افغانستان پر روس کے قبضے کے دوران اس اخبار کا نام ’کابل نیو ٹائمز‘ رکھا گیا تھا۔
سال 2001 میں طالبان کے دور کے خاتمے کے بعد اس کی اشاعت 2002 میں ایک بار پھر شروع ہوئی۔ 2018 کے حکومت کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق اخبار کی یومیہ 47 ہزار کاپیاں شائع کی جا رہی تھیں۔
’کابل ٹائمز‘ کے چیف ایڈیٹر بننے سے قبل سہیل شاہین پاکستان میں طالبان کی افغان حکومت کے سفارت خانے میں نائب سفیر کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔ وہ کچھ وقت کے لیے طالبان کی وزارتِ خارجہ کے بھی ترجمان رہے تھے۔
ڈاکٹر محمد نعیم وردک
ڈاکٹر محمد نعیم کا پورا نام ڈاکٹر محمد نعیم وردک ہے۔ ان کا تعلق افغان صوبے وردک سے ہے۔ اسی وجہ سے ان کے نام کے ساتھ وردک لگا ہوا ہے۔
نعیم وردک سے متعلق بعض حلقوں کی یہ رائے ہے کہ وہ کبھی طالبان کی صفوں میں باقاعدہ فعال نہیں رہے۔ البتہ، قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کی سرگرمیوں اور بین الاقوامی تعلقات کو مربوط کرنے کے لیے ڈاکٹر محمد نعیم وردک نے کافی کوششیں کیں۔
وہ 2013 میں طالبان کے قطر میں دفتر کے قیام کے ساتھ ہی وہاں بطور ترجمان تعینات ہوئے تھے۔
افغانستان کے حوالے سے رپورٹس مرتب کرنے والے غیر سرکاری ادارے ’افغانستان انالسٹس‘ کے مطابق ڈاکٹر محمد نعیم وردک نے پاکستان میں پشاور یونیورسٹی سے بی-اے کیا تھا۔ بعد ازاں انہوں نے اسلام آباد کی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم مکمل کی۔ اسی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی۔ پی ایچ ڈی کرنے کے بعد وہ 2010 میں واپس افغانستان چلے گئے تھے۔
رپورٹس کے مطابق ڈاکٹر محمد نعیم پاکستان کے علاقے اکوڑہ خٹک میں قائم مدرسے دارالعلوم حقانیہ میں بھی زیرِ تعلیم رہے۔ اس مدرسے سے طالبان کے کئی رہنما منسلک رہے ہیں اور اسی وجہ سے مغربی ذرائع ابلاغ میں اسے ’جہاد یونیورسٹی‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر محمد نعیم وردک کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ وہ 2011 میں افغان حکومت کی قید میں بھی رہے۔ ان کو چھ ماہ تک جیل میں رکھا گیا تھا اور ان کی گرفتاری کی وجہ طالبان سے ہمدری بتائی گئی تھی۔ یہ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ ان کی رہائی رشوت کے عوض عمل میں آئی تھی۔
انہیں پشتو، دری، اردو، فارسی، عربی اور انگریزی زبان پر عبور حاصل ہے، جب کہ ان کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ وہ انتہائی مذہبی شخص اور حافظِ قرآن ہیں۔
عبد القہار بلخی
کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد ذبیح اللہ مجاہد کی پہلی پریس کانفرنس میں ان کے انگریزی مترجم کے فرائض عبد القہار بلخی نے انجام دیے تھے۔ یہ طالبان کے کلچرل (ثقافتی) کمیشن کے رکن ہیں۔ طالبان کا یہ کمیشن ذرائع ابلاغ سے متعلق طالبان کی سرگرمیوں کی نگرانی کرتا ہے۔
عبد القھار بلخی کی روانی سے انگریزی بولنے کی وجہ سے ذرائع ابلاغ کے کئی بین الاقوامی ادارے ان کا انٹرویو کر چکے ہیں۔ تاہم عبد القہار بلخی کے بارے میں زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں۔