|
گیارہ نومبر سے آذربائیجان کے شہر باکو میں دنیا بھر کے ماہرین آب و ہوا کی تبدیلی سے متعلق اقوام متحدہ کی کانفرنس میں شریک ہو رہے ہیں۔ یہ کانفرنس جسے COP29 کا نام دیا گیا ہے، 22 نومبر تک جاری رہے گی۔
آب و ہوا کی تبدیلی پر عالمی سربراہ کانفرنس سے قبل سائنس دانوں نے گلوبل وارمنگ سے متعلق تازہ ترین اعداد و شمار جاری کیے ہیں، جن میں بتایا گیا ہے کہ جب سے درجہ حرارت کا ریکارڈ رکھا جانے لگا ہے، سال 2024 اب تک کا گرم ترین سال بننے جا رہا ہے۔
سائنس دانوں نے زمین کو تیزی سے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے مضمرات سے بچانے کے لیے صنعتی دور کے آغاز کے درجہ حرارت سے زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ کی حد مقرر کی ہے اور کہا ہے کہ اس حد کو عبور کرنے کے بعد زمین کے موسم شدید تر ہونے لگیں گے اور زندگی گزارنا مشکل تر ہوتا جائے گا۔ "ہم یہ حد پہلے ہی عبور کر چکے ہیں۔"
گلوبل وارمنگ کے اعداد و شمار اکھٹے کرنے والے یورپی یونین کے کوپرنیکس ارتھ آبررویشن پروگرام کے ڈائریکٹر کالو بونٹیمپو کا کہنا ہے کہ یہ نوع انسان کے لیے ایک اہم لمحہ ہے۔
انہوں نے جمعرات کو خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں اسے نفسیاتی کہوں گا کیونکہ یہ وہ چیز ہے جس پر نہ صرف سائنس دانوں نے، بلکہ پالیسی سازوں، معاشروں اور اقوام نے اسے ایک حوالے کے طور پر استعمال کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
SEE ALSO: امریکہ شدید گرمی کی لپیٹ میں، درجہ حرارت نے پاکستان کے گرم ترین دن کو بھی مات دےدیپیرس معاہدہ
آب و ہوا کی تبدیلی پر پیرس کانفرنس میں عالمی درجہ حرارت کو صنعتی دور سے پہلے کے درجہ حرارت سے ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ کے اندر رکھنے پر اتفاق کیا گیا تھا اور اسے پیرس معاہدے کا مرکزی ستون کہا گیا تھا۔ اس معاہدے پر 196 ملکوں نے دستخط کیے تھے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ زمین کے درجہ حرارت کا اس حد سے تجاوز کرنا تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔
برطانیہ کے چیتھم ہاؤس کی ایک سینئر ریسرچ فیلو اور گلوبل وارمنگ پر آذربائیجان کے لیے تیار کردہ رپورٹ کی شریک مصنف روتھ ٹاؤنینڈ کا کہنا ہے کہ ہم زمینی نظام کے بہت سے انتہائی پوائنٹس کے قریب پہنچ چکے ہیں، تاہم یہ چیز مختلف ملکوں، خاص طور پر چھوٹے جزیروں کی ریاستوں کے لیے مختلف ہو سکتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم اس سطح کے قریب آ گئے ہیں جس پر زمین کے نظام کا توازن قائم ہے۔ اگر یہ حد عبور کی گئی تو پھر اسے واپس لانا شاید ممکن نہیں ہو گا۔
کاربن گیسوں کا اخراج
کاربن گیسوں کا تیزی سے بڑھتا ہوا اخراج زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کا بنیادی سسب ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اگر موجودہ رجحان برقرار رہا تو اس صدی کے آخر تک زمین کا درجہ حرارت صنعتی دور سے قبل کے مقابلے میں تین درجے سینٹی گریڈ تک بڑھ جائے گا۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے سربراہی اجلاس سے قبل اپنے ایک ریکارڈ شدہ پیغام میں کہا ہے کہ گزشتہ سال کاربن گیسوں کے اخراج میں ایک اعشاریہ تین فی صد اضافہ ہوا۔ ہمیں درجہ حرارت کو ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ کی حد کے اندر رکھنے کے لیے، سن 2030 تک ہر سال گیسوں کے اخراج میں 9 فی صد کمی کرنی ہو گی۔
SEE ALSO: گروپ سیون ممالک کاگرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں بڑا حصہ ہے: ماہرین اور سر گرم کارکنکوپ 29
گیارہ نومبر سے 22 نومبر تک باکو میں جاری رہنے والے سربراہی اجلاس میں گلوبل وارمنگ کے مختلف پہلوؤں پر غور کیا جائے گا۔ کانفرنس کے دوران سینکڑوں عالمی رہنما اور ہزاروں ماہرین کاربن گیسوں کے اخراج میں کمی اور گلوبل وارمنگ سے نمٹنے کے طریقہ کار اور اس مقصد کے لیے لیے مالی وسائل کی فراہمی پر بات چیت کریں گے۔
مالی وسائل کی فراہمی
اس کانفرنس میں ترقی پذیر ممالک کو آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے مالی وسائل کی فراہمی پر بات چیت ہو گی اور یہ وسائل اگلے سال برازیل میں COP30 کانفرنس سے پہلے فراہم کیے جائیں گے۔
SEE ALSO: گرمی سے منسلک اموات 2050 تک تقریباً 400 فیصد بڑھ جائیں گیآذربائیجان کے انتخاب پر سوال کیوں؟
کچھ لوگوں نے آب و ہوا کی تبدیلی کے سربراہی اجلاس کی میزبانی کے لیے آذربائیجان کے چناؤ پر سوال اٹھایا ہے کیونکہ یہ تیل اور گیس پیدا کرنے والا ایک بڑا ملک ہے جب کہ کاربن گیسوں کے اخراج میں یہ دونوں چیزیں ایک بڑا کردار ادا کرتی ہیں۔ جب کہ دوسری جانب یہ ملک آب و ہوا کی تبدیلی کے مضر اثرات کا بھی سامنا کر رہا ہے۔
ٹرمپ کی واپسی
امریکہ کا حالیہ صدارتی انتخاب سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جیت لیا ہے۔
اپنی پہلی صدارتی مدت میں ٹرمپ نے امریکہ کو پیرس معاہدے سے الگ کر لیا تھا۔ اور جنوری میں اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد، بعض لوگوں کے خیال میں وہ یہ قدم دوبارہ اٹھا سکتے ہیں۔
انہوں نے تیل اور گیس کی تلاش کے لیے امریکہ کے وسیع تر علاقوں کو کھولنے کا وعدہ بھی کیا ہے۔
SEE ALSO: ٹرمپ کا پیرس موسمیاتی معاہدے سے الگ ہونے کا اعلانیہ خدشات بھی موجود ہیں کہ ٹرمپ کے مجوزہ درآمدی محصولات چین کے ساتھ تجارتی جنگ کا سبب بن سکتے ہیں۔ امریکہ اور چین سب سے زیادہ گرین ہاؤس گیسیں خارج کرنے والے دو اہم ملک ہیں اور کاربن گیسوں کے عالمی اخراج کا ایک تہائی حصہ ان دونوں ملکوں کی طرف سے ہی آتا ہے۔
چیتھم ہاؤس کی سینئر فیلو روتھ ٹاؤنینڈ کہتی ہیں کہ ہمیں جغرافیائی سیاسی عدم استحکام کے ان حالات میں ایسا بندوبست سیکھنا ہو گا جو آب و ہوا کی تبدیلی کے حوالے سے آگے بڑھنے میں مدد دے۔
شدید موسم
کیلی فورینا میں جنگلات کی آگ سے لے کر اسپین کے حالیہ مہلک سیلابوں کے پس منظر میں سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس نوعیت کے شدید موسمی واقعات، دنیا کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو فوری روکنے کے اقدامات کرنے کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔
یورپی یونین کے کوبرنیکس پروگرام کے بونٹیمپو کہتے ہیں کہ شدید موسمی حالات کے پیش نظر آذربائیجان کانفرنس کا کامیاب ہونا بہت ضروری ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کثیر الجہتی مذاکرات اور گفت و شندید ہی وہ واحد طریقہ کار ہے جو ہمیں عالمی حل کی تلاش میں مدد دے سکتا ہے۔