کالعدم تحریکِ طالبان (ٹی ٹی پی) نے دعویٰ کیا ہے کہ تحریک کے سربراہ مفتی نور ولی محسود نے گزشتہ ماہ ایک ہفتے تک پاکستان کے قبائلی اضلاع کے دورے کیے، تاہم پاکستانی حکومت نے اس دعوے کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹی ٹی پی کے سربراہ کی افغان سرحد سے ملحقہ علاقوں میں نقل و حرکت دیکھی گئی تھی، لیکن وہ پاکستان میں داخل نہیں ہوئے۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے نذر الاسلام نے ٹی ٹی پی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ مفتی نور ولی محسود نے باجوڑ اور جنوبی وزیرستان میں متعدد افراد سے ملاقاتیں کیں اور تنظیم کو مزید مضبوط بنانے پر مشاورت کی۔
پاکستان کے وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے مفتی نور ولی محسود کی پاکستان آمد کے دعوؤں کی تردید کی ہے۔
اس دعوے سے متعلق وائس آف امریکہ کو بھیجے گئے اپنے پیغام میں فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی حکام نے تصدیق کی ہے کہ نور ولی محسود پاکستان نہیں آئے جب کہ انٹیلی جنس حکام کا کہنا ہے کہ اُن کی شمالی افغانستان اور کنڑ کے علاقوں میں نقل و حرکت دیکھی گئی تھی۔
پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کا یہ دعویٰ رہا ہے کہ افغانستان سے ملحقہ قبائلی اضلاع میں کامیاب فوجی آپریشنز کے ذریعے کالعدم تحریک طالبان کی کمر توڑ دی گئی ہے اور اب اس کی قیادت افغانستان میں روپوش ہے۔
تجزیہ کار اور مبصرین کہتے ہیں کہ اگر ٹی ٹی پی کے دعوے کو درست مان لیا جائے تو مفتی نور ولی محسود کے اس دورے کا مقصد ٹی ٹی پی سے منحرف دھڑوں کو یہ پیغام ہو سکتا ہے کہ طاقت کا محور اب بھی ٹی ٹی پی ہی ہے۔
افغان امور کے ماہر اور شدت پسندی کے موضوع پر تحقیق کرنے والے سوئیڈن میں مقیم محقق عبدالسید کا کہنا ہے کہ اطلاعات کے مطابق جس طرح ایک باقاعدہ کارواں کی شکل میں نور ولی محسود ان علاقوں میں آئے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان کے بدلتے حالات تحریکِ طالبان پاکستان کی تنظیمی قوت میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔
اُن کے بقول افغانستان میں طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد ٹی ٹی پی کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے تنظیمی ڈھانچے میں مزید وسعت آ رہی ہے۔
شدت پسندی کے موضوع پر تحقیق کرنے والے محقق اور پشاور یونیورسٹی کے شعبہ ذرائع ابلاغ سے منسلک پروفیسر ڈاکٹر سید عرفان اشرف کہتے ہیں کہ مفتی نور ولی محسود کے باجوڑ سے وزیرستان کے دورے کا بنیادی مقصد تمام دھڑوں کو یہ واضح پیغام دینا تھا کہ ان کی سربراہی میں ٹی ٹی پی متحد ہے اور وہ اس تنظیم کے غیر متنازع سربراہ ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تحریکِ طالبان پاکستان کا اب بھی سابقہ قبائلی علاقوں میں بہت زیادہ اثر و رسوخ ہے اور وہ مقامی لوگوں کے مسائل جرگے کے ذریعے حل کرتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
خیال رہے کہ حکیم اللہ محسود کے مارے جانے کے بعد تنظیم کی قیادت سوات طالبان کے سربراہ ملا فضل اللہ کو ملی تھی جس کے بعد ٹی ٹی پی دھڑے بندیوں کا شکار ہوئی اور ناراض گروہوں کے سرکردہ رہنماؤں نے شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ (داعش) میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔
پاکستان اور افغانستان کے لیے داعش کے پہلے کمانڈر حافظ سعید خان کا شمار ٹی ٹی پی کے بانی ارکان میں ہوتا تھا۔ جو افغانستان میں ایک امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے۔
عرفان اشرف کے مطابق مفتی نور ولی محسود کو ملا فضل اللہ کے امریکی ڈرون حملے میں مارے جانے کے بعد جون 2018 میں ٹی ٹی پی کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا اور انہیں سابق امیر بیت اللہ محسود کے قریبی ساتھیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
افغان طالبان کے کابل پر کنٹرول کے بعد امریکی نشریاتی ادارے 'سی این این' کو دیے گئے انٹرویو میں مفتی نور محسود نے کہا تھا کہ اُن کی جنگ پاکستان کے ساتھ ہے اور وہ قبائلی علاقوں کے عوام کو حقوق دلوانے کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ڈاکٹر عرفان اشرف کا کہنا تھا کہ شدت پسند تنظیم داعش بھی اس خطے میں فعال ہے۔ جس کا عملی مظاہرہ وہ حالیہ کچھ مہینوں سے کرتی چلی آ رہی ہے۔
داعش نے افغانستان سے انخلا کے دوران کابل ایئرپورٹ کے باہر ایک خود کش حملے کی ذمے داری قبول کی تھی جس میں 13 امریکی فوجیوں سمیت 150 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اس سے قبل گزشتہ ماہ قندوز اور قندھار شیعہ کمیونٹی کی مساجد میں نمازِ جمعہ کے دوران ہونے والے خود کش حملوں میں سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔
ڈاکٹر سید عرفان اشرف کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں اگر کوئی تنظیم داعش کا راستہ روک سکتی ہے تو وہ ٹی ٹی پی ہو گی۔ کیونکہ ٹی ٹی پی اور افغان طالبان کے درمیان مکمل ہم آہنگی ہے اور وہ کبھی بھی داعش کو اپنے زیرِ اثر علاقوں میں منظم نہیں ہونے دیں گے۔
افغانستان میں طالبان کے کنٹرول کے بعد ٹی ٹی پی منظم ہو رہی ہے؟
عبدالسید کہتے ہیں کہ تحریکِ طالبان پاکستان کے سربراہ مفتی نور ولی محسود کا مبینہ دورہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ تحریک طالبان کے اس خود ساختہ 'شمالی زون' میں اس کی جڑیں کافی مضبوط ہیں۔
اُن کے بقول ان علاقوں میں ضلع خیبر سے لے کر پشاور، مردان، سوات دیر اور باجوڑ ریجن شامل ہیں۔ یہاں خصوصاً وہ بڑے گروپ موجود ہیں جو پچھلے سال دوبارہ تحریک طالبان میں ضم ہوئے جن میں جماعت الاحرار اور حزب الاحرار جیسے گروپ بھی شامل ہیں۔
یاد رہے کہ پاکستان کی حکومت متعدد مرتبہ افغان طالبان سے ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کے بارے میں اپنے خدشات کا اظہار کر چکی ہے۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں ٹی ٹی پی کے فعال جنگجوؤں کی تعداد چھ ہزار تک ہو سکتی ہے۔
گزشتہ چند ماہ کے دوران تحریک طالبان پاکستان کے جنگجوؤں نے خیبر پختونخوا بالخصوص سابقہ قبائلی علاقہ جات میں سو سے زائد حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
ٹی ٹی پی کی جانب سے جاری ہونے والے ایک حالیہ بیان میں انہوں نے اکتوبر میں 24 حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔