پاکستان کی قومی ایئر لائن پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) نے اپنا ری اسٹرکچرنگ پلان 2021 تیار کر لیا ہے جس کے مطابق پی آئی اے کے ایک جہاز پر 500 ملازمین کا بوجھ کم کر کے فی جہاز 250 ملازمین تک لایا جائے گا۔
پی آئی اے شعبۂ انجینئرنگ سمیت تمام اہم شعبوں کو اسلام آباد منتقل کر دیا جائے گا۔
پی آئی اے کے چیف ایگزیکٹو آفیسر، ایئر مارشل ارشد ملک کی جانب سے یہ منصوبہ وزیرِ اعظم عمران خان کو پیش کر دیا گیا ہے۔
پی آئی اے حکام کے مطابق اس وقت پی آئی اے میں 'ہیومن ریسورس' کے اخراجات سب سے زیادہ ہیں اور ماہانہ دو ارب 60 لاکھ جب کہ سالانہ 24 ارب 80 کروڑ تنخواہوں کی مد میں چلے جاتے ہیں۔
پی آئی اے میں فی جہاز ملازمین کیا واقعی زیادہ ہیں؟
پی آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ ان کے پاس کل 29 طیارے ہیں اور اس کے ملازمین کی تعداد 14 ہزار 500 ہے۔
اگر دنیا کی دیگر ایئر لائنز کے ساتھ اس کا موازنہ کیا جائے تو قطر ایئر ویز کے پاس 240 جہاز ہیں اور اس کے ملازمین کی تعداد 46 ہزار ہے جب کہ فی جہاز 191 ملازمین ہیں۔
امارات ایئر لائن کے پاس 269 جہاز ہیں اور ان کے ملازمین کی تعداد 62 ہزار 356 ہے جب کہ فی جہاز ملازمین کی تعداد 231 ہے۔
ترکش ایئر لائنز کے پاس 329 جہاز ہیں اور ملازمین کی تعداد 31 ہزار ہے جو 94 ملازمین فی جہاز بنتی ہے۔
اس طرح اتحاد ایئر ویز کے 102 جہازوں کے لیے 21 ہزار 530 ملازمین ہیں جو فی جہاز صرف 211 ہیں۔ لیکن اس کے مقابلے میں پاکستان میں 29 جہازوں کے لیے 14 ہزار 500 ملازمین ہیں جو فی جہاز 500 ملازمین بنتے ہیں۔
پی آئی اے نے فیصلہ کیا ہے کہ ان ملازمین کی تعداد کم کر کے 250 ملازمین فی جہاز کی تک لایا جائے گا۔
ملازمین کو فارغ کیسے کیا جائے گا؟
پہلے مرحلے میں 'وی ایس ایس' یعنی رضاکارانہ سبک دوشی کے ذریعے 3500 ملازمین کو فارغ کیا جائے گا۔ یہ مرحلہ 22 دسمبر تک جاری رہے گا۔ اس میں ملازمین کو ایک مالی پیکج دے کر رُخصت کیا جائے گا۔
دوسرے مرحلے میں لازمی فراغت کا فیز ہو گا جس میں کارکردگی اور ڈسپلن کی بنیاد پر ملازمین کو برطرف کیا جائے گا۔
اس مرحلے کی ڈیڈ لائن جنوری 2021 مقرر کی گئی ہے۔ اس فیز میں آنے والے ملازمین کو بعد از ریٹائرمنٹ مالیاتی پیکج، میڈیکل یا مفت فضائی ٹکٹ کی سہولت نہیں دی جائے گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
تیسرے مرحلے میں 'نان کور فنکشن' کے ملازمین کو علیحدہ کیا جائے گا، اس فیز کی ڈیڈ لائن مارچ 2021 ہے۔
ان ملازمین میں فوڈ سروسز، ٹیکنیکل گراؤنڈ اسٹاف، انجینئرنگ سینٹر اور 'اسپیڈ ایکس' کوریئر کے ملازمین شامل ہیں۔ 'اسپیڈ ایکس' کو 26 نومبر 2020 سے بند کر دیا گیا ہے اور اس کے تمام ملازمین کو فارغ کیا جائے گا۔
پی آئی اے کے شعبۂ انجینئرنگ کا کچھ حصہ پاکستانی فضائیہ کے سپرد کرنے کی بھی تجویز ہے۔
ٹیکنیکل گراؤنڈ سروسز اور انجینئرنگ بیس مینٹینس کے لیے نجی کمپنی کے ساتھ اشتراک کیا جائے گا اور تمام ملازمین کو فارغ کیا جائے گا۔ نجی کمپنی اگر ان ملازمین کو رکھنے پر رضامند ہوئی تو انہیں وہاں ٹرانسفر کر دیا جائے گا۔
چوتھے مرحلے میں احتساب کا عمل کیا جائے گا اور وہ ملازمین جن کے خلاف محکمانہ تحقیقات جاری ہیں انہیں جلد مکمل کیا جائے گا۔
عدالتوں میں زیرِ التوا کیسز کو جلد مکمل کیا جائے گا جب کہ ایف آئی اے اور نیب میں زیرِ سماعت کیسز کو بھی جلد از جلد مکمل کرایا جائے گا۔ اس مرحلے کی ڈیڈ لائن بھی مارچ 2021 رکھی گئی ہے۔
پی آئی اے ہیڈ آفس کی اسلام آباد منتقلی
پی آئی اے کے تمام مرکزی افسر اس وقت کراچی میں ہیں اور انہیں اسلام آباد منتقل کرنے کا پلان تیار کر لیا گیا ہے جس کے تحت کمرشل ڈپارٹمنٹ، ہیومن ریسورس، لیگل، انڈسٹریل ریلیشن اور فلائٹ سروسز ڈویژن کو جنوری میں اسلام آباد منتقل کر دیا جائے گا۔
فروری 2021 تک فلائٹ آپریشنز، میڈیکل ڈویژن، کارپوریٹ ڈویلپمنٹ، ورک ڈویژن اور سپلائی چین مینجمنٹ کو بھی اسلام آباد منتقل کیا جائے۔
مارچ 2021 تک انٹرنل آڈٹ، کارپوریٹ سیکرٹریٹ اور فنانس ڈپارٹمنٹ کی منتقلی ہو گی۔
جون 2021 میں پی آئی اے کا شعبۂ انجینئرنگ مکمل طور پر اسلام آباد منتقل کر دیا جائے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
اخراجات میں کمی
پی آئی اے میں اخراجات کی کمی کے حوالے سے مختلف اقدامات کا اعلان کیا گیا ہے جس میں الاؤنسز کی تعداد کم کی جا رہی ہے۔ ملازمین کو ملنے والے 'ٹی اے ڈی اے' کو بھی محدود کیا جا رہا ہے۔
پی آئی اے کے اخراجات میں ایک بڑا حصہ میڈیکل کی سہولت کا ہے جہاں پی آئی اے ملازمین کو نجی اسپتالوں میں علاج کرانے کی سہولت موجود تھی جس کی وجہ سے پی آئی اے پر بطورِ ادارہ بھاری ذمہ داری تھی۔
لیکن اب پی آئی اے انتظامیہ نے فیصلہ کیا ہے کہ ملازمین کو صحت کارڈ فراہم کر دیے جائیں۔ اگر صحت کارڈ کا آپشن قابلِ عمل نہ ہوا تو نجی اسپتالوں کے بجائے سرکاری اسپتالوں کو پینل پر لیا جائے گا۔ اس کے علاوہ علاج کے نام پر ایک رقم تنخواہوں کے ساتھ ہی ادا کرنے کا آپشن بھی زیرِ غور ہے۔
پی آئی اے میں ملازمین کو مفت ٹکٹ کی سہولت بھی دستیاب تھی لیکن اب اس کو بھی محدود کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور جن ملازمین کو یہ ٹکٹس زیادہ تعداد میں دستیاب تھے، اب اس کو بھی کم کر دیا جائے گا۔
انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ایسے ٹکٹس فیول کے اخراجات میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔
'پی آئی اے میں مارشل لا لگا دیا گیا ہے'
پی آئی اے آفیسرز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری صفدر انجم نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ انتظامیہ کے چارج سنبھالنے کے بعد ان کا کسی تنظیم کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت جہازوں کی تعداد کم ہے تو نئے جہاز ملازمین نے تو نہیں خریدنے۔
تنخواہوں کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ہماری تنخواہیں بھی بین الاقوامی ایئر لائنز کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔ انتظامیہ اپنی غفلت کا ملبہ ملازمین پر ڈالتے ہوئے ایسے اقدام کر رہی ہے۔
صفدر انجم نے کہا کہ اب تک 700 سے زائد لوگوں کو اسلام آباد منتقل کرنے کے لیے خطوط جاری کر دیے گئے ہیں۔ اس کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ لوگوں میں خوف و ہراس پیدا کیا جائے۔ ایک ملازم جس کی تنخواہ 15 سے 20 ہزار ہے وہ اسلام آباد کیسے جا سکتا ہے؟
انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ جیسے پی آئی اے میں ایئر مارشل صاحب نے مارشل لا لگا رکھا ہے۔ یہاں جتنا ظلم ہو رہا ہے اس پر انسانی حقوق کی تنظیموں کو آواز اٹھانی چاہیے۔
اُن کا کہنا تھا کہ جن ملازمین کو اسلام آباد بھجوایا گیا ہے ان کی رہائش کا کوئی مستقل انتظام نہیں کیا گیا۔ انہیں گیسٹ ہاؤسز میں ٹھیرایا جا رہا ہے۔
پی آئی اے کی تنظیمِ نو کی سفارشات اور ملازمین کے تحفظات پر وائس آف امریکہ نے پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ سے رابطے کی کوشش کی۔ لیکن اُنہوں نے اس موضوع پر بات کرنے سے گریز کیا۔
اس سے قبل پی آئی اے کی تنظیمِ نو پر مبنی سفارشات سپریم کورٹ آف پاکستان میں بھی پیش کی گئی تھیں۔
پی آئی اے کے چیف ایگزیکٹو ارشد ملک کا یہ مؤقف رہا ہے کہ کئی برسوں سے خسارے کی شکار قومی ایئر لائن کی بحالی اور اس کی تنظیمِ نو کے لیے اقدامات ناگزیر ہیں۔