تیل و گیس کی تلاش کے لیے تین کمپنیوں کے 11 منسوخ لائسنس بحال

فائل فوٹو

پاکستان کی وفاقی کابینہ نے کرونا وائرس کے حالات کے دوران تیل و گیس کی تلاش کرنے والی تین کمپنیوں کی طرف سے مقررہ کردہ وقت میں کام مکمل نہ کرنے پر منسوخ ہونے والے 11 لائسنس بحال کر دیے ہیں۔

ان لائسنسوں کی بحالی کے بعد یہ کمپنیاں خیبرپختونخوا اور سندھ کے مختلف علاقوں میں دوبارہ کام شروع کر سکیں گی۔

ان تینوں کمپنیوں کے ساتھ عدالت سے باہر ہونے والے اس تصفیے کے نتیجے میں حکومت کو فیسوں کی مد میں فوری طور پر 50 لاکھ ڈالر ملیں گے جب کہ کمپنیوں کی طرف سے مشینری اور افرادی قوت کے لیے 11 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔

وفاقی کابینہ کی طرف سے منظور ہونے والی سمری کے مطابق 11 لائسنس منسوخی کے بعد یہ کمپنیاں عدالتوں میں جاچکی ہیں اور اس وقت اسلام آباد ہائی کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ میں کیسز کی سماعت جاری ہے۔

ان کمپنیوں میں پاکستان ایکسپلوریشن لمیٹڈ، دیوان پیٹرولیم لمیٹڈاورآئل اینڈ گیس انوسٹمنٹ لمیٹڈ شامل ہیں۔

کابینہ کی سمری میں کہا گیا ہے کہ اس وقت کمپنیاں ہائی کورٹ میں قانونی جنگ لڑ رہی ہیں اور ابھی ان کے پاس سپریم کورٹ کا فورم بھی موجود ہے۔ اس کے نتیجے میں جن بلاکس میں لائسنس دیے گئے وہاں کوئی کام نہیں ہوسکتا جب کہ ایکسپلوریشن اور پروڈکشن کا کام بھی تاخیر کا شکار ہوسکتا ہے۔ اگر ان کمپنیوں کو دیے گئے لائسنس سے کوئی دریافت ہوتی ہے تو ملک میں توانائی کے بحران سے نمٹنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔

SEE ALSO: پاکستان کی ایکسچینج مارکیٹ میں ڈالر کیوں غائب ہے؟

سمری کے مطابق اس بارے میں ای سی سی نے بھی 27 نومبر کو منظوری دےدی تھی جس کے بعد کابینہ نے بھی ان کمپنیوں کے لائسنس بحالی کی اجازت دے دی ہے۔

آئل اینڈ گیس سیکٹر کو کیا فائدہ ہوگا؟

اس بارے میں بات کرتے ہوئے سینئر صحافی سہیل بھٹی نے کہا کہ ان کمپنیوں کے ساتھ قانونی جنگ کے لیے بہت زیادہ وقت درکار تھا اور حکومت کے لیے اس قدر مشکل مالی حالات میں ممکن نہ تھا کہ وہ یہ قانونی جنگ بھی لڑتی۔

انہوں نے کہا کہ ان ایکسپلوریشن اینڈ پروڈکشن کمپنیوں کو 2017 میں لائسنس جاری کیے گئے تھے اور تین سال میں ان کمپنیوں نے کام کرنا تھا۔ جب ان کو ایوارڈ ہوا اور جب ایکسپلوریشن کا وقت قریب آیا تو کرونا کی وجہ سے انہیں بعض مشینری منگوانے اور کام کو آگے بڑھانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پانچ سال کے لیے دیے گئے ان لائسنسوں میں اگر حکومت خود سے توسیع دے دیتی تو حکومت پر کرپشن کے الزامات اور آڈٹ پیراز بن جاتے، جس کی وجہ سےحکومت نے ان کے لائسنس منسوخ کردیے۔

SEE ALSO: پاکستان کے زرِمبادلہ کے ذخائر 7 ارب ڈالر سے بھی کم؛ معاشی ماہرین کو تشویش

حکومت کی حکمتِ عملی کے حوالے سے انہوں نے مزید بتایا کہ لائسنس منسوخ کرنے کے بعد حکومت کو اس بات کا احساس تھا کہ امن وامان کی صورتِ حال اور بیوروکریسی کی وجہ سے بیرونِ ملک سےکمپنیاں پاکستان نہیں آ رہیں۔ اگر ان کمپنیوں کو بھی واپس بھیج دیا گیا تو مزید کمپنیاں کام کرنے نہیں آئیں گی۔

ان کے مطابق اس پر حکومت نے ان کمپنیوں کے ساتھ عدالت سے باہر تصفیہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ پیٹرولیم اور قانون ڈویژن نے ان کمپنیوں کے ساتھ تصفیہ کرنے کی منظوری دی، جس کے بعد یہ کمپنیاں 50 لاکھ ڈالر حکومت کو فیسوں کی مد میں فوری ادا کرنے کو تیار ہوگئی ہیں جب کہ 11 کروڑ ڈالر کی مزید ادائیگی کی جائے گی۔

سہیل بھٹی نے امکانات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ دریافت کے بعد چھ ڈالر فی بیرل کا ریٹ ہوتا ہے، جس میں سے تین ڈالر حکومت کو رائلٹی اور ٹیکسز کی مد میں واپس مل جاتے ہیں جب کہ ان کمپنیوں کو تین ڈالر کے قریب ملتے ہیں، جس کی ادائیگی پاکستانی روپے میں کی جاتی ہے۔ لہٰذا پاکستان کو ڈالرز کی بھی بچت ہوگی۔ موجودہ حالات میں ڈالرز کی کمی کے باعث پاکستان کو بیرون ملک سے تیل منگوانے کے بجائے اپنی پیداوار سے فائدہ ہی ہوگا۔

پیٹرولیم ڈویژن سے تعلق رکھنے والے سابق افسر انجنیئر ارشد مسعود نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان لائسنسوں کی بحالی سے پاکستان کو فائدہ ہی ہوگا کیوں کہ اگر ان لائسنسوں کی بحالی سے ملک میں چھ کنوؤں کی دریافت بھی ہوجائے تو پاکستان کے لیے بہت فائدہ مند ہوگی۔

SEE ALSO: سپریم کورٹ نے ریکوڈک معاہدے کو قانونی قرار دے دیا

انہوں نے کہا کہ ان کمپنیوں کے ساتھ جو معاملات تھے، ان میں بیوروکریسی کا سرخ فیتہ بھی تھا، جس کی وجہ سے کئی معاملات میں تاخیر ہوئی، تاہم ان لائسنسوں کی بحالی ایک اہم قدم ہے، جس سے ملک کو فائدہ ہی ہوگا۔

تیل و گیس کے ذخائر میں کمی

پاکستان میں تین کمپنیوں کے لائسنس تو بحال کر دیے گئے البتہ پاکستان میں پہلے سے موجود ذخائر کی پیداوار میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔

پیٹرولیم ڈویژن کی آڈیٹر جنرل کو بھجوائی گئی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں موجود 1234 ملین بیرل کے ذخائر میں سے 985 ملین بیرل کے ذخائر استعمال کر لیے گئے ہیں جو کل ذخائر کا تقریباً 80 فی صد کے قریب ہیں۔ اب پاکستان کے پاس249 ملین بیرل کے ذخائر باقی ہیں۔

صوبوں کے اعتباز سے بلوچستان میں 1.84 ملین بیرل کے ذخائر میں 0.24 ملین بیرل استعمال ہوچکے ہیں جب کہ 1.60 ملین بیرل باقی ہیں۔ خیبر پختونخوا میں264.83 ملین بیرل میں سے 170 ملین استعمال کے بعد 94.24 ملین بیرل باقی ہے۔ پنجاب میں 457.43 ملین بیرل میں سے 383.20 ملین بیرل استعمال ہوچکے اور 74.23 ملین بیرل باقی ہیں، سندھ میں 509.58 ملین بیرل میں سے 430.60 استعمال کے بعد 78.79 ملین بیرل باقی ہیں۔

SEE ALSO: روس پاکستان کو کم قیمت پر تیل فراہم کرے گا؛ وفاقی حکومت کا اعلان

گیس کے ذخائر میں پاکستان کے پاس 63 ٹریلین کیوبک فٹ کے ذخائر میں سے 42 ٹریلین کیوبک فٹ گیس استعمال ہوچکی ہے۔

سہیل بھٹی کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ذخائر تیزی کے ساتھ ختم ہوتے جا رہے ہیں جب کہ اس صورتِ حال میں پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ اپنی ضروریات پیدا کرنے کے لیے نئے ذخائر کی دریافت پر توجہ دی جائے، اگر ایسا نہ ہوا تو توانائی کے لیے پاکستان کا بیرون ملک پر انحصار بڑھتا جائے گا اور پاکستان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔