پاکستان کے وزیرِ مملکت برائے پیٹرولیم سینیٹر مصدق ملک نے اعلان کیا ہے کہ روس پاکستان کو کم قیمت پر تیل فراہم کرے گا۔
اپنے دورۂ ماسکو سے متعلق پیر کو میڈیا کو آگاہ کرتے ہوئے سینیٹر مصدق ملک کا کہنا تھا کہ یہ دورہ توقعات سے زیادہ کامیاب رہا اور روس نے پاکستان کو رعایتی قیمت پر خام تیل اور قابل استعمال تیل جیسے پیٹرول اور ڈیزل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
سینیٹر مصدق ملک نے کہا کہ روس پاکستان کو تیل کے نرخوں پر اتنی ہی رعایت ہی دے گا جو کہ وہ دنیا کے کسی اور ملک کو دے رہا ہے۔ ان کے بقول روس کی جانب سے وہی خام تیل پاکستان کو ملے گا جو ہمارے تیل صاف کرنے کے کارخانوں کے ذریعے قابل استعمال بنایا جاسکتا ہے۔
خیال رہے کہ بھارت روس سے کم قیمت پر تیل حاصل کررہا ہے۔ روس یوکرین جنگ کے باعث پیدا شدہ صورتِ حال میں بھارت نے روس سے اپنی تیل کی درآمد کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔
مصدق ملک نے کہا کہ روس پاکستان کو کتنی مقدار اور کتنی رعایت پر پیٹرول مہیا کرے گا اس کی تفصیلات طے کرنا بھی باقی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان تفصیلات پر بات چیت کے لیے روس کے وزیرِ توانائی کی سربراہی میں وفد جنوری میں پاکستان کا دورہ کرے گا۔
وائس آف امریکہ کے سوال پر مصدق ملک نے کہا کہ روس کے ساتھ تیل کی فراہمی کی تفصیلات طے ہونا باقی ہیں البتہ جنوری میں معاہدہ طے پانے کے بعد پاکستان کو تیل کی فوری فراہمی شروع ہوجائے گی۔
پاکستان کا ایک اعلیٰ سطح وفد وزیر مملکت برائے پیٹرولیم سینیڑ مصدق ملک کی سربراہی میں گزشتہ ہفتے ماسکو کے سرکاری دورے پر تھا جہاں انہوں نے روسی حکام سے رعایتی قیمت پر خام تیل کی درآمد کے امکانات پر بات چیت کی تھی۔
اس دورے کے بارے میں دونوں ممالک نے باضابطہ تفصیلات جاری نہیں کی تھیں جس کے باعث قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں۔
توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے پیشِ نظر پاکستان کی حکومت نے روس سے سستا خام تیل خریدنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا اور گزشتہ ماہ کے آغاز میں مصدق ملک نے بتایا تھا کہ پاکستان نے روس کو اپنی توانائی کی ضروریات سے متعلق خط لکھا ہے جس میں روس کو آگاہ کیا گیا ہے کہ پاکستان روس سے گیس اور تیل خریدنے کے لیے تیار ہے۔
پاکستان اپنی ضرورت کا 85 فی صد تیل درآمد کرتا ہے جس میں خام تیل اور قابل استعمال تیل دونوں شامل ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف یہ دعویٰ کرتی ہے کہ ان کی حکومت روس سے سستا تیل حاصل کرنے کے معاہدے کے قریب تھی لیکن ان کی حکومت ختم کردی گئی۔ موجودہ حکومت ان دعوؤں کی تردید کرتی آئی ہے۔
’ ایل این جی فوری دستیاب نہیں‘
مصدق ملک نے مزید بتایا کہ روس کی سرکاری کمپنیوں کے پاس فوری طور پر ایل این جی دستیاب نہیں ہے البتہ انہوں نے 2024 کے لیے پاکستان کو قدرتی مائع گیس کی فراہمی کے معاہدوں کی پیش کش کی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان کی ایل این جی کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے روس کی حکومت نے پاکستانی وفد کی اپنی نجی کمپنیوں کے ساتھ بات چیت کرائی ہے اور پاکستان کی حکومت سنجیدگی سے اس بات چیت کو آگے بڑھا رہی ہے۔
یاد رہے کہ موسمِ سرما میں پاکستان کو گھریلو اور صنعتی گیس کی ضروریات پوری کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دوسری جانب توانائی کی مد میں ادائیگیوں کی وجہ سےگردشی قرضوں اور مالیاتی خسارے پر قابو پانا بھی ایک چیلنج ہے۔
روس سے تیل کی خریداری پر تحفظات
یوکرین پر حملے کے بعد سے امریکہ اور یورپی یونین روس پر کئی اقتصادی پابندیاں عائد کرچکے ہیں جب کہ اس پر مالی دباؤ بڑھانے کے لیے تیل کی برآمدات کو بھی محدود کرنا چاہتے ہیں۔ اسی لیےمغربی ممالک روس سے تیل و گیس کی خریداری پر خدشات اور تحفظات کا اظہار کرتے ہیں۔
تاہم پاکستانی وفد کے دورۂ روس کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ امریکہ نے روس پر تیل برآمد کرنے کے لیے اب تک پابندیاں نہیں لگائی ہیں اور امریکہ پاکستان کی تیل کی ضروریات کو سمجھ سکتا ہے۔
گیس کے گرتے ذخائر
مصدق ملک نے کہا کہ پاکستان کے قدرتی گیس کے مقامی ذخائر ہر سال 9 فیصد تک گررہے ہیں اور ملک کو ترقی کی راہ پر لے جانے کے لیےتوانائی کی ضروریات پوری کرنا ہوں گی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ملکی مفادات کو سامنے رکھے گا اور اس ضمن میں جو بھی معاہدے کیے جائیں گے ان میں بین الاقوامی قواعد کو مدنظر رکھا جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ ہمسایہ ملک ایران نے پاکستان کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر 20 لاکھ پونڈ ایل پی جی دینے پر اتفاق کیا ہے جو کہ آئندہ 10 روز میں پاکستان پہنچ جائے گی۔
پاکستان بین الاقوامی مارکیٹ سے ایل این جی حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے کیوں کہ اسپاٹ قیمتیں اس کی قوتِ خرید سے باہر ہیں اور طویل مدتی سودوں کے تحت ہونے والی ترسیل بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہے۔